چہ دلاور است

06 مئ 2015
حیرت ہوتی ہے جب بڑے بڑے دانشور حضرات ہمارے بلاگ نقل کر کے اپنے نام سے پیش کرتے ہیں اور حوالہ دینے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ — Creative Commons
حیرت ہوتی ہے جب بڑے بڑے دانشور حضرات ہمارے بلاگ نقل کر کے اپنے نام سے پیش کرتے ہیں اور حوالہ دینے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ — Creative Commons

ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے بلاگ کی زبان آسان ہو، لیکن کیا کریں ہمیں اپنے اس بلاگ کا عنوان فارسی میں رکھنا پڑا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو ہم لکھ رہے ہیں، اس کے لیے اس سے بہتر عنوان ہو ہی نہیں سکتا۔ ”چہ دلاور است دز دے کہ بہ کف چراغ دارد“۔ اس کے معنی آسان اردو میں یوں ہیں: ”کتنے دلیر ہیں، جو چوری کرتے ہوئے ہاتھوں میں چراغ رکھتے ہیں“۔ زمانہ نیا ہے، تو چلیں چراغ کو آپ ٹارچ بھی کہہ سکتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست نما استاد امجد قمر نے اسلام آباد سے فون کیا کہ ایک ٹی وی چینل کے ”نامور ڈاکٹر دانشور نما اینکر“ (یہ ڈاکٹر ایم بی بی ایس ہیں، پی ایچ ڈی نہیں، پی ٹی وی سمیت بے شمار نجی چینلز پر اپنی دانشوری کا سکہ جما چکے ہیں، اور لوگوں کو قیامت کی نشانیوں سے بھی آگاہ کرتے رہے ہیں) نے ہمارے یہودی مسجد پر لکھے گئے بلاگ پر ایک پورا پروگرام کر ڈالا، اور تمام کا تمام مواد ہمارے بلاگ کا تھا، حتیٰ کہ تصاویر بھی، لیکن کہیں بھی ہمارا حوالہ نہ تھا۔

انہوں نے پروگرام کا لنک بھی ہمیں بھیج دیا۔ میں نے اور ڈان اردو کے ایڈیٹر منظر الٰہی نے وہ پروگرام دیکھا اور بقول شاعر ”ہم چپ رہے، ہم ہنس دیے، منظور تھا پردہ تیرا۔“ تقریباً ایک ہفتے بعد ہمارے اسلام آباد کے ایک دوست سہیل انور نے فون پر ہمیں بتایا کہ مذکورہ ڈاکٹر دانشور نے ہمارے ایک اور بلاگ ”قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا“ پر بھی پروگرام کر ڈالا ہے، اور حسبِ سابق نہ کوئی حوالہ نا کوئی نام۔ انہوں نے ہمیں لنک بھیجا، اور بات بالکل درست تھی۔

اس سے قبل ڈان نیوز کے بلاگز ایڈیٹر آزاد قلمدار، جو ہمارے بہت اچھے دوست بھی ہیں، کو ہم نے بتایا تھا کہ کراچی کے ایک مقامی اخبار نے بھی ہمارے بلاگ چھاپنے شروع کیے ہیں، لیکن اس اخبار کی اعلیٰ ظرفی یہ تھی کہ وہ نہ صرف ڈان کا حوالہ دیتے تھے، بلکہ ہمارا نام بھی چھاپتے تھے۔ کچھ دن پہلے بلوچستان کے ایک دوست کا فون آیا، اور انہیں اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ ہم بلوچستان کے اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔

ہم نے اس بات سے انکار کیا، تو انہوں نے اخبارات کی کاپیاں ہمیں بذریعہ ڈاک ارسال کر دیں، جن سے ان کی بات کی تصدیق ہوگئی۔ معاملہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں۔ گذشتہ دنوں لاہور گئے تو معلوم ہوا کہ وہاں کے ایک اردو اخبار کے لیے بھی ہم کالم لکھتے ہیں۔ ہم معاملہ سمجھ گئے۔ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ کہیں ڈان کا ذکر تھا، تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب لکھنے کی وجہ شاید صرف یہ ہے کہ ہم اپنے زورِ قلم سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم بلاگ اردو میں لکھتے ہیں جن کا انگریزی میں ترجمہ آدرش ایاز لغاری ڈان انگلش کے لیے کرتے ہیں اور پھر اس کا ترجمہ بعض سندھی رسائل میں ہمارے نام سے چھپتا ہے۔ ہمارے بلاگز کی اس مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟

اس حوالے سے ہمارے صحافی دوست عزیز سنگور کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ہمارے بلاگز میں دیے جانے والے مستند تاریخی حوالے ہیں، جو ان بلاگز کو ہمیشہ تر و تازہ رکھتے ہیں، اور یہ تاریخ کے طالب علموں کے لیے دل چسپی کا باعث ہیں۔ ہمارے ساتھی اختر سومرو سے جب اس ضمن میں بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم جس قسم کی معلومات اپنے بلاگ میں دیتے ہیں وہ صرف کتابی اور نقل در نقل نہیں ہوتیں، بلکہ اس میں تحقیق کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ اور صرف یہی نہیں، بلکہ تاریخی معلومات کا تقابلی جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ جس کا اب رواج نہیں رہا۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کسی مقام کے بارے میں لکھنے سے پہلے اس کا دورہ کرنا اہم ہوتا ہے، جو عموماً لوگ نہیں کرتے۔ جہاں تک ہمارے تاریخی حوالے دینے کی بات ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اگر کسی دوست نے اس سلسلے میں رہنمائی کی ہو تو اس کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔

ہمارے دوست فوٹو جرنلسٹ اطہر بھائی نے ایک نجی محفل میں ہمیں کہا کہ بھائی کبھی ہم سے بھی پوچھ لیا کرو اور اگر پوچھ نہیں سکتے تو ساتھ ہی لے جایا کرو، اس بہانے ہمارا نام تو دے دو گے۔ اس بات پر محفل میں سبھی لوگ بے ساختہ ہنس پڑے۔

حوالوں کا یہ طریقہ ہم نے ڈان ڈاٹ کام کے مرحوم ایڈیٹر مصدق سانول سے سیکھا تھا۔ ہم نے ان کی اس بات کو گرہ سے باندھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ہمارے بلاگ نہ صرف پڑھتے ہیں، بلکہ ہم پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ ہمارے قارئین نہ صرف ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہیں، بلکہ معلومات کی تصحیح اور رہنمائی بھی کرتے ہیں، جو ایک خوش آئند بات ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج ہم مکمل طور پر خود ستائشی پر اترے ہوئے ہیں، اور انجمن ستائش باہمی کے مرکزی صدر لگتے ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے۔ ہم پان کھانے کے بہت شوقین ہیں۔ گو کہ اب ہم نے پان کھانا بہت کم کر دیا ہے، لیکن کیا کریں "چھٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی۔" ایک دن ہم ایک پان کی دکان سے پان لے رہے تھے، کہ پاس کھڑے ایک نوجوان نے جو کہ کبھی کبھار وہاں نظر آتے تھے، ہمیں دیکھ کر کہا کہ آپ لکھتے بھی ہیں؟

مجھے ایسا لگا کہ وہ غالباً کہنا چاہ رہا تھا کہ لکھتے ہیں اور پان بھی کھاتے ہیں۔ خیر ہم نے کہا کہ بس لکھ لیتے ہیں۔ ہم سمجھے انہوں نے ڈان ڈاٹ کام پر ہمارا کوئی بلاگ پڑھ لیا ہوگا، یا ہماری کتاب ”تیسری جنس“ ان کی نظر سے گزری ہوگی۔ لیکن اگلے لمحے ہی اس نوجوان نے ہمیں چونکا دیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی فاطمہ جناح پر کتاب بہت اچھی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے اس موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی۔

نوجوان نے اصرار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کتاب میں آپ کی تصویر بھی ہے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ کتاب کی کوئی کاپی اس کے پاس موجود ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں! میں نے پڑھ لی ہے۔ کیا آپ کو چاہیے؟ میں نے کہا بالکل چاہیے۔ انہوں نے اگلے دن ایک بجے کا وقت دیا۔ ہم نے وہ رات کیسے گزاری، یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ اگلے دن ایک بجے پان کی دکان پر پہنچے اور اس نوجوان کے بارے میں پان والے سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہاں سے جا چکے ہیں۔ ہمارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور ہم مایوس ہوگئے۔

اچانک پان والا بولا کہ یہ کتاب وہ آپ کے لیے دے کر گیا ہے۔ یہ کتاب نہیں کتابچہ تھا۔ کتاب کے عنوان نے ہمیں حیران کر دیا، کہ یہ ہمارے ایک بلاگ کا عنوان تھا: ”قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا“۔ اتنا ہی کافی تھا ہمارے لیے۔ پان کی دکان سے پریس کلب تک 5 کلومیٹر کا فاصلہ کیسے طے ہوا، یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ کلب پہنچ کر کتابچے کا بہ غور جائزہ لیا۔ چار رنگوں کا سرورق جس پر فاطمہ جناح کی خوب صورت تصویر اور پس ورق پر پاکستان کا نقشہ سبز ہلالی پرچم میں سمویا ہوا تھا، جس میں کشمیر شامل نہیں تھا۔ نقشے کے آخر میں مزار قائد کی تصویر اور سر ورق پر ”قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا“ کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے:

”پاکستان بنانے والوں کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا؟ ہم کتنے محسن کش ہیں جانیے۔“

کتابچے میں پہلا بلاگ قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کے عنوان سے ہے۔ دوسرے بلاگ کا عنوان ”فاطمہ جناح اور ریڈیو کے فرمان بردار ٹرانسمیٹر“ ہے۔ تیسرے بلاگ کا عنوان ”قائد اعظم کی زندگی کے گمشدہ اوراق“ ہے۔ یہ کتابچہ 36 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ تمام بلاگ آپ ڈان ڈاٹ کام اردو اور انگلش پر پڑھ چکے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ کتابچے پر شائع کرنے والے اور تقسیم کار کا نام موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ پرنٹر کا نام بھی نہیں ہے۔

جن صاحب نے یہ چھاپا ہے ان کی نیک نیتی پر کوئی شک نہیں ہے۔ وہ یقیناً یہ چاہتے ہوں گے کہ جو لوگ اس معلومات سے محروم رہے ہیں، ان تک بھی یہ معلومات پہنچا دی جائیں۔ یہ ایک اچھا عمل ہے، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس میں ڈان ڈاٹ کام کا حوالہ ہوتا۔ اور اگر ہمارا نام بھی چھاپ دیا جاتا تو کیا برائی تھی؟

ہمارے ساتھی محسن سومرو نے ہمیں بتایا کہ تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود کتابچے کے صفحہ نمبر 11 اور 12 پر دوبار ہمارا نام چھپ گیا ہے اور نہ صرف، یہ بلکہ صفحہ نمبر 33 پر شریف المجاہد کا انٹرویوکرتے ہوئے ہماری تصویر بھی چھپ گئی ہے۔

جناح صاحب یا ایسی دوسری شخصیات، تاریخی مقامات اور مذہبی عبادت گاہوں کے حوالوں سے ہمارے تمام بلاگ قابل اشاعت ہیں اور ہم ان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی کرتے ہیں کیوں کہ ”ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔“

ہم قلم کے مزدور ہیں اور جن اداروں کے لیے لکھتے ہیں وہ ہمیں اس کی مزدوری بھی ادا کرتے ہیں۔ جو دوست ہمارا بلاگ چھاپتے ہیں اور حتیٰ کہ کتابی صورت میں بھی چھاپتے ہیں ان سب کو یہ مشورہ ہے کہ آئندہ اگر وہ اس طرح کی نیکی کا کام کریں تو ہم سے مشورہ ضرور کریں۔ لیکن یہ با معاوضہ ہوگی بلا معاوضہ نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (10) بند ہیں

نور May 06, 2015 04:46pm
انٹرنیٹ نے علمی اور عقلی سرقے کی روایت کو مضبوط کر دیا ہے. اور اس جرم میں صرف گمنام "پبلشرز" اور نامور "اینکرز" ہی شامل نہیں، بلکہ بعض نامور اخبار بھی شامل ہیں. ایسے لوگ بلاگز وغیرہ سے خبر اٹھا کر اپنے نام سے یا "ویب ڈیسک" کے نام سے بے شرمی سے چھاپ دیتے ہیں.
Ahmer Butt May 06, 2015 04:47pm
ایسا نہ ہو کہ اب اخترصاحب کا یہ بلاگ بھی کوئی دوست "دلاور کا قلمی سرقہ" کے عنوان سے کتابچے کی شکل میں شائع کردے۔۔ بہت تکلیف دہ بات ہوتی ہے جب کسی محقق کی محنت کا معاوضہ تو مل جائے، لیکن اس کا نام نہ آئے۔۔ بہرحال نقل کرنے سے مواد تو آجاتا ہے، دلیل اور تجربہ حاصل نہیں ہوتا اور یہی اصل لکھاری کی جیت ہوتی ہے۔ کسی کو "quote" کرنے سے اپنی عقل ودانش پر کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ پڑھنے والے کو یہی پیغام ملتا ہے کہ لکھنے والا حوالوں اور تحقیق کے بل پر اپنے رائے قائم کررہا ہے۔ ان باتوں سے قطع نظر استادمحترم کے ساتھ ہونے والے قلمی واردات نہایت دلچسپ ہے۔ لکھتے رہیے، آپ خوب لکھتے ہیں۔
saeed jan baloch May 06, 2015 04:56pm
dedey hain dokha kolah bazigar yahan. akhgtar sahib ap laktey jain hum nakal krte jain gey jo krna hy krlo
عدنان May 06, 2015 06:33pm
مذکورہ ڈاکٹر کو علمی سرقے میں کوئی خاص ایوارڈ ملنا چاہیئے ان کا نصب العین ہے جتنا ملے ، جہاں ملے ، جس سے ملے ترکی کے ہارون یحییٰ اور جاوید چودہری کے بعد آپ بھی متاثرین میں شامل ہوگئے
محمد ارشد قریشی (ارشی) May 06, 2015 06:54pm
بلوچ صاحب اللہ سلامت رکھے آپ کو بہت خوب لکھتے ہیں آج آپ نے اس بلاگ کی ابتدائی سطور میں ہمارے دل کی بات تحریر کردی ۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ایک بلاگ لکھا تھا میں حیران رہ گیا کہ بلاگ شائع ہونے کے دو دن بعد وہ بلاگ ایک اخبار میں شائع ہوا اور ستم ظریفی یہ تھی کہ اس بلاگ پر لکھا تھا رپورٹ ہمارے نمائیندہ خصوصی ۔ بہت دکھ ہوتا ہے اس پست اخلاقی پر ۔
Danish Ali Qureshi May 06, 2015 07:12pm
janab Akhtar sahab, chori ki riwayat media man baohat ziada barh gae ha aor ya nasirf qabil e afsos ha balky ``qurb e qayamat ki nishani bhi hay`` samajh gae haongy app End of Time. jin lagon ny bhi kitabcha chapa ya app ky blog chori kiya shayad un man aqal thori kam thi. hawala dayny sy tahrir ki worth man izafa hota ha kami nahi. app likhty raheen is baat ko bhol jaen k kon chori karta ha aor kun karta ha. in logon k liya man sirf yahi kahoon ga k ``baat to sach hy mager baat hay ruswai ki``
danish khanzada May 06, 2015 07:57pm
akhtar bhai ap ne abtak khas bilog pesh keye hen aur ye to aam se baat he ke dawn ho ya bbc . en par ane wale khas bilog ko urdu aur sindhi media man-o-aan print karta he. kai colum mere bhi khi se nikalne wale urdu papers me print ho chuke hen. bas ap ke tarha hame bhe yehe shikayat he ke name ka zikar tak nahe hota..
Sameer Ali May 06, 2015 08:10pm
میرا خیال ہے کہ ڈان اُردوڈاٹ کام اور اختر بلوچ کو اس حوالے سے تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور یہ انڈین نغمہ سُنتے رہنا چاہیے۔”اِس دنیا میں سب چور چور، کوئی چھوٹا چور کوئی بڑا چور۔“یہ دور کتابوں کا تو ہے ہی لیکن اِنٹرنیٹ نامی ظالم محتسب نے چوروں کو پکڑنے کا ایک طریقہ بنا دیا ہے۔پنجاب کے دو ڈاکٹر(معاف کیجیے گا یہ ایم بی بی ایس نہیں پی ایچ ڈی ہیں)اِن کو صدارتی تمغہء اِمتیاز بھی مل گیا ہے لیکن اِن کی پی ایچ ڈی کا مواد چوری شدہ ہے اور یہ خبر غالباً میں نے ڈان پہ ہی پڑھی تھی۔
Razzak Abro May 06, 2015 08:31pm
Your point is valid. Whatever it is, one thing is clear, at least, that your writing are popular. I do support your advise that 'muft mashora' nahi mangna chahiyey, especially when anybody is doing any 'neki ka kam'
anwar May 07, 2015 07:00am
اس ڈاکٹر کو میں جانتا ہوں اور بدقسمتی سے انکے پراگرام میں نے دیکھے ہیں جس کے اپ نے اس بلاگ میں ذکر کیا ہے ۔۔۔۔اور یہ صرف ڈاکٹر نہیں یہ حوالدار کے نام سے بھی جانا جاتاہے پر ہے نہیں