شعیب شیخ کیخلاف مقدمہ، ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے

اپ ڈیٹ 27 مئ 2015
ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ عدالت میں پیشی کے موقع پر—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ عدالت میں پیشی کے موقع پر—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
شعیب شیخ اور وقاص عتیق کو عدالت میں پیش کیا جارہا ہے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
شعیب شیخ اور وقاص عتیق کو عدالت میں پیش کیا جارہا ہے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب

کراچی: آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) شعیب شیخ کو 7 جون تک جسمانی ریمانڈ پر فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کردیا گیا ہے۔

ملزمان شعیب شیخ ، وقاص عتیق اوردیگر 5 ملزمان کو آج بروز بدھ کراچی کی بینکنگ کورٹ میں پیش کیا گیا۔

سماعت کے دوران ایف آئی اے حکام نے عدالت سے ملزمان کے ریمانڈ کی درخواست کی، جسے منظور کرتے ہوئے عدالت نے ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ، وقاص عتیق اور دیگر 5 ملزمان کو 7 جون تک جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔

اس سے قبل شعیب شیخ سمیت دبئی کی ایک کمپنی اور 6 دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر اور سی ای او ایگزیکٹ شعیب شیخ سمیت 7 افراد اور دبئی کی کمپنی کے خلاف اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل سعید میمن کی جانب سے سرکار کی مدعیت میں ایف آئی آر نمبر 7/2015 درج کی گئی۔

مذکورہ ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کے دو خصوصی قوانین الیکڑا نک ٹرانسیکشن آرڈیننس 2002 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت درج کی گئی۔

ایف آئی آر میں نامزد ملزمان میں شعیب شیخ، ایگزیکٹ کی دبئی کمپنی میسرز/ ایگزیکٹ ایف زیڈ ایل ایل سی (FZLLC)،وقاص عاطف، زیشان انور، زیشان احمد، حارث صدیقی، فرحان کمال اور عمیر حامد شامل ہیں۔

ان ملزمان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 420،468، 471، 472،473،474، 477(اے)، 109 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

جبکہ الیکڑا نک ٹرانسیکشن آرڈیننس 2002 کی دفعات 36 اور 37 کے ساتھ ساتھ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی دفعہ 3/4 بھی مقدمے میں شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق شعیب شیخ اور ان کی اہلیہ کے پاس ایگزیکٹ کا صرف ایک ، ایک فیصد شیئر ہے جبکہ دبئی کی کمپنی FZLLC کے پاس 599998 شیئرز ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق انھوں نے یہ معلومات سیکیورٹی ایکس چینج کمپنی آف پاکستان سے حاصل کی ہیں۔

ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب ان کے دفتر سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے حراست میں لے کر پاسپورٹ سرکل آفس منتقل کیا تھا۔

ایف آئی اے نے شعیب شیخ کے ساتھ کمپنی کے مزید 6 افراد کو بھی حراست میں لیا تھا۔

ڈائریکٹر شاہد حیات کے ہمراہ ایف آئی اے کی ٹیم نے ایگزیکٹ کی عمارت سے ملحقہ اسی کمپنی کے زیر استعمال ایک دفتر پر بھی چھاپہ مارا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی کمپنی پر دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں بیچنے کا الزام

ایف آئی اے کی چھاپہ مار ٹیم کے مطابق ایگزیکٹ سے ملحقہ عمارت پر چھاپے کے دوران لاکھوں کی تعداد میں جعلی ڈگریاں اور دیگر سامان بھی برآمد کیا گیا۔

اس کارروائی میں ایف آئی اے کے 20 سے زائد اہلکاروں نے حصہ لیا۔

شعیب شیخ کی حراست کے بعد ایف آئی اے کے ڈائریکٹر شاہد حیات نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ٹی کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے ایف آئی اے کے پاس موجود اب تک کے شواہد کافی ہیں۔

شاہد حیات نے مزید کہا کہ ایگزیکٹ کی عمارت سے ملحقہ دفتر سے لاکھوں کی تعداد میں جعلی ڈگریاں اور طلبہ کے کارڈز برآمد ہوئے ہیں۔

ایگزیکٹ کے پرنٹنگ پریس کو سیل کردیا گیا—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
ایگزیکٹ کے پرنٹنگ پریس کو سیل کردیا گیا—۔ڈان نیوز اسکرین گریب

ایف آئی کی ٹیم نے مذکورہ دفتر میں موجود پرنٹنگ پریس کو سیل کردیا، حکام کا کہنا ہے کہ اس دفتر کو مزید کارروائی کے لیے صبح کے اوقات میں دوبارہ کھولا جائے گا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل شعیب شیخ اور ایگزیکٹ کے دیگر سات ڈائریکٹرز کو بینکنگ کورٹ میں پیش کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کو ایگزیکٹ کے اکاؤنٹس کی جانچ کی اجازت

جبکہ گزشتہ دنوں شعیب شیخ نے سندھ ہائی کورٹ میں گرفتاری سے قبل ضمانت کے لیے درخواست جمع کروائی تھی جو کہ عدالت کی جانب سے مسترد کردی گئی۔

گزشتہ ہفتے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم یونٹ نے ایگزیکٹ کے اسلام آباد اور کراچی کے دفاتر سے مینوئل، ریکارڈز اور کمپیوٹرز کی فورنسک جانچ کے لیے قبضے میں لے لیا تھا۔

ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سرکل نے نوٹس جاری کرتے ہوئے ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب احمد شیخ کو جمعرات کو طلب بھی کیا تھا۔

ایف آئی اے نے کمپنی کے اعلی عہدے داروں سے کہا ہے کہ وہ اپنی رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ اور ٹیکس ریٹرن کی تفصیلات وغیرہ فراہم کریں۔

ایگزیکٹ کے حوالے سے مزید خبریں: ایگزیکٹ اسکینڈل: ایف بی آئی سے رابطے کا فیصلہ

واضح رہے کہ ایگزیکٹ کے خلاف کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں پاکستانی کمپنی سے متعلق عالمی سطح پر جعلی ڈگریوں کے اسکینڈل کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد تحقیقات کا حکم دیا۔

وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار نے ایف آئی اے کو تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

وفاقی وزیر نے اپنی ہدایت میں یہ بھی کہا کہ ایف آئی اے اس بات کا تعین کرے کہ نیویارک ٹائمز کی خبر میں کس حد تک صداقت ہے۔

ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ الزامات درست ثابت ہونے کی صورت میں پاکستان الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس کے تحت اس جرم میں سات برس قید تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایگزیکٹ کے ساتھ دستاویزات کی تصدیق کا معاہدہ نہیں، امریکا

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے پاکستان میں اپنے بیورو چیف ڈیکلن والش کی تفصیلی رپورٹ بعنوان "Fake Diplomas, Real Cash: Pakistani Company Axact Reaps Millions" شائع کی، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح اپنے معاملات خفیہ رکھنے والی پاکستانی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ نے مبینہ طور پر جعلی اسناد، گھوسٹ یونیورسٹیوں اور صارفین سے ہیرا پھیری کرتے ہوئے لاکھوں ڈالرز کمائے۔

مضمون میں کمپنی کی جانب سے میڈیا گروپ 'بول' شروع کرنے کے حوالے سے بھی سوالات اٹھاتے ہوئے اس کے پاکستانی فوج یا پھر منظم جرائم پیشہ گروہوں سے تعلق کا الزام لگایا گیا۔

تاہم ایگزیکٹ نے اپنے جوابی ردعمل میں ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا تھا۔

[1]:

تبصرے (0) بند ہیں