گمبٹ میں گردے اور جگر کی پیوندکاری کی مفت سہولت

14 جولائ 2015
گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں گردے کی پیوندکاری کے بعد مریض ڈاکٹر کی نگرانی میں صحتیابی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ —. فوٹو سعید میمن
گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں گردے کی پیوندکاری کے بعد مریض ڈاکٹر کی نگرانی میں صحتیابی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ —. فوٹو سعید میمن

لاڑکانہ: امیرزادی کہتی ہیں کہ ’’جب گھر میں چارپائی اُلٹ دی گئی (انتہائی بے بسی اور غم کی علامت کے طور پر) اور خاندان کے تمام افراد بےبسی کی حد پار کرگئے تو میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے لیے اپنا گردہ عطیہ کرنے کا فیصلہ کرلیا، جو اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا تھا۔‘‘

وہ گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (جی آئی ایم ایس) میں اپنی کہانی سنارہی تھیں۔ اس وقت ان کے اردگرد دو نرسیں اور میڈیکل ٹیم لیڈر ڈاکٹر محمد خان بابر موجود تھے۔

امیرزادی نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا ’’میرے شوہر کا دو سال پہلے انتقال ہوگیا تھا، اور میں اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ اگر گردہ عطیہ کرنے کے بعد میں مربھی جاتی ہوں تو یہ چھوٹی سی قربانی ہوگی۔‘‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’میرے بھائی کو ایک نئی زندگی مل جائے گی، اور اس طرح میں اپنے خاندان کو اطمینان اور تحفظ کا احساس دے سکوں گی۔ ہمارا تعلق دادو ضلع کے رادھان قصبے سے ہے اور ہم بہت غریب ہیں اور بمشکل اپنے اخرجات پورے کرپاتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر محمد خان بابر نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی رہنمائی میں کام کیا ہے، اب وہ گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (جی آئی ایم ایس) میں کام کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس انسٹیٹیوٹ میں اب تک گردے کی پیوندکاری کے چھ کامیاب آپریشن کیے جاچکے ہیں۔ جبکہ چودہ مزید کیسز آپریشن کے لیے قطار میں ہیں۔ ان کے تمام اخراجات مریضوں کے بجائے سندھ حکومت کی جانب سے ادا کیے گئے ہیں۔

جی آئی ایم ایس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی نے بھی اس منصوبے کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس طرح کے دور دراز علاقے میں ایسی منظم اور خصوصی طبی سہولیات کی فراہمی ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے، جو کہ لاڑکانہ میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی بھی بدقسمتی سے اب تک نہیں پیش کرسکی ہے۔‘‘

ڈاکٹر محمد خان بابر نے اس مشاہدے سے اتفاق کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ دیگر میڈیکل کالجوں کی سہولیات کو وسعت دی جائے تاکہ تربیت یافتہ ڈاکٹر اور طبی عملے کے افراد معاشرے کے وسیع طبقے کی خدمت کرسکیں۔

1934ء سے 1980ء تک جی آئی ایم ایس ایک ڈسپنسری کی صورت میں قائم تھا، جہاں اوپی ڈی کی سہولت فراہم کی جاتی تھی۔ 1980ء میں اسے تعلقہ ہسپتال بنادیا گیا۔

عالمی بینک نے اس کا جائزہ لیا، اور 1997ء میں اس کو ماڈل تعلقہ ہسپتال قرار دے دیا۔ ستمبر 2003ء میں گورنر سندھ نے اسے گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (جی آئی ایم ایس) کا درجہ دیااور 2005ء میں یہاں ایک میڈیکل کالج کے قیام کی منظوری دی گئی۔

ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی یہاں میڈیکل کالج کے قیام لیے کام کررہے ہیں۔ بنیادی طور پراسے 2010ء میں مکمل ہوجانا تھا، لیکن یہ تاخیر کا شکار ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’’ہمارا ارادہ ہے کہ یہ میڈیکل کالج اس سال مکمل ہوجائے، لیکن اس کی تاخیر سرخ فیتے کا ثبوت ہے۔‘‘

ڈاکٹر رحیم بخش نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے ایس آئی یو ٹی کے لیے 2015-16ء کے بجٹ میں 3.5 ارب روپے اور تیس کروڑ روپے جگر کی پیوندکاری کے لیے مختص کیے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’ہمیں مختلف منصوبوں کی منظوری حاصل کرنے میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن ہم مستقل مزاجی اور ایمانداری کے ساتھ ہمیشہ کام کرتے رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے اس منصوبے کے لیے صوبائی وزیرِ صحت جام مہتاب ڈاہر کی مدد کی تعریف کی۔

ڈاکٹر رحیم بخش گمبٹ میں دستیاب صحت کی خصوصی سہولیات کو توسیع دینے کے لیے باقاعدگی کے ساتھ سفر کرتے رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ تعلقہ گمبٹ کی آبادی تقریبا چالیس ہزار ہے۔

جی آئی ایم ایس نے جگر پیوندکاری کے لیے جرمنی کی ایک ٹیم کے ساتھ ایک یادداشت پر بھی دستخط کیے ہیں۔

یاد رہے کہ ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ پاکستانی جگر کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور بین الاقوامی ہیلتھ سرکلز میں پاکستان کا حوالہ ایک ’’کرہوٹک ریاست‘‘ کے طور پر دیا جاتا ہے۔ کرہوسس جگر کی بیماری کی آخری اسٹیج ہوتی ہے۔

پاکستان میں تقریباً پچیس لاکھ مریضوں کو فوری طور پر جگر ٹرانسپلانٹ کی سرجری کی ضرورت ہے اور بدقسمتی سے ان میں سے زیادہ تر اس سرجری کے اخراجات کی استطاعت نہیں رکھتے۔

واضح رہے کہ پروفیسر بیکر کی سربراہی میں جرمنی کی ٹیم تین سرجنوں، ایک اینیستھیولوجسٹ اور دو اسٹاف نرسوں پر مشتمل ہے، اور یہ اس منصوبے پر کام کرے گی، جس کے لیے حکومتِ سندھ نے 2015-16ء کے بجٹ میں تیس کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔

ڈاکٹر رحیم بخش نے بتایا کہ اس منصوبے پر 90 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی، جسے حکومتِ سندھ تین مرحلوں میں فراہم کرے گی۔

پروفیسر بیکر نے وعدہ کیا ہے کہ جگر ٹرانسپلانٹ کے پہلے کیس کی سرجری وہ خود کریں گےاور یہ ادارہ اس کے تمام اخراجات برداشت کرے گا۔

چونکہ جی آئی ایم ایس کے لیے یہ ایک مہنگا منصوبہ ہے، چنانچہ ڈاکٹر رحیم بخش نے تجویز پیش کی کہ اس پروگرام کو دیگر میڈیکل اداروں تک توسیع دی جائے اور اس خدمت کی فراہم کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے عطیہ دہندگان اور مخیر حضرات کو بھی شامل کیا جائے۔

اس منصوبے کو حتمی شکل دینے اور جی آئی ایم ایس پر اگست کے آخر تک جگر ٹرانسپلانٹ کے آغاز کے لیے جرمنی میں جرمن ماہرین کے ساتھ ایک اجلاس کے انعقاد کی تجویز رکھی گئی تھی۔ اب تک چالیس مریضوں کو رجسٹرڈ کیا جاچکا ہے۔

ڈاکٹر رحیم بخش نے کہا کہ ٹرانسپلانٹ کے علاوہ یہ ٹیم مقامی ڈاکٹروں کو مستقبل کے لیے تربیت بھی دے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ میرا خواب تھا کہ سندھ کے دور دراز علاقوں میں غریب آبادی کے لیے گردے اور جگر ٹرانسپلانٹ کی سہولت کے ساتھ ساتھ طبی عملے کے لیے تربیت کی فراہمی ہوتے دیکھوں۔‘‘

گمبٹ میڈیکل کالج تقریباً مکمل ہوگیا ہے اور ایم بی بی ایس کے لیے داخلے اگست میں شروع ہوجائیں گے۔ داخلے کے لیے سندھ کے 23 اضلاع کے طالبعلموں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے ساتھ اس کالج کی رجسٹریشن تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ پہلے داخلہ ٹیسٹ اکتوبر میں ہوں گے۔ یہ میڈیکل کالج کا ایک خودمختار پرنسپل، کنٹرولر اور رجسٹرار بھی ہوگا۔

تین سو بستروں ایک ہسپتال آخری مرحلے میں ہے، اور طلباء کی رہائش کے لیے 100 کمروں کا ایک ہاسٹل تقریباً مکمل ہے اور دسمبر 2015ء تک تیار ہوجائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

ساجداقبال Jul 14, 2015 02:06pm
عجب اتفاق کہ ہمارا ضلع کوہاٹ میں واقع گاؤں بھی قریبا چالیس ہزار آبادی پر مشتمل ہے۔ یہاں کالجز ہیں مگر سرکاری ہسپتال میں کوئی خاص سہولت دستیاب نہیں۔
Muhammad Ayub Khan Jul 14, 2015 02:07pm
Allah is kaam ko devaam dey Amin
Shahid Jul 15, 2015 12:36am
sorry can't write in urdu because of non availability of key board. very informative article and great step taken by the good people. just small correction; the word cirrhosis is pronounced as si-roh-sis.