نئے آفاق کی تلاش میں خلائی جہاز پلوٹو جا پہنچا

میڈیا کے ارکان جان ہوپکنز یونیورسٹی کی اپلائیڈ فزکس لیب میں پلوٹو کی تازہ ترین تصاویر دیکھ رہے ہیں۔ — Reuters
میڈیا کے ارکان جان ہوپکنز یونیورسٹی کی اپلائیڈ فزکس لیب میں پلوٹو کی تازہ ترین تصاویر دیکھ رہے ہیں۔ — Reuters
ناسا کی جانب سے جاری کردہ پلوٹو کی یہ تصویر نیو ہورائزنز نے لی ہے۔ — AP
ناسا کی جانب سے جاری کردہ پلوٹو کی یہ تصویر نیو ہورائزنز نے لی ہے۔ — AP

9 سال اور 3 ارب میل لمبے سفر کے بعد بالآخر خلائی جہاز نیو ہورائزنز (نئے آفاق) بونے سیارے پلوٹو کے قریب سے ہو کر گزر گیا ہے۔

اس تاریخی موقع پر اس نے پلوٹو کی آج تک کی سب سے مفصل اور بہترین تصاویر لی ہیں، جن سے سائنسدانوں کو پلوٹو کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملے گا۔

نیو ہورائزنز جنوری 2006 میں امریکی ریاست فلوریڈا کے کیپ کیناویرال ایئر فورس سینٹر سے لانچ کیا گیا تھا۔

اسے نظامِ شمسی کے سیاروں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے ناسا نیو فرنٹیئرز پروگرام کے تحت بنایا گیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ اس خلائی جہاز کے پاس پلوٹو کے قریب ترین پہنچنے کا ریکارڈ ہے، بلکہ 16.26 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے لانچ کیے جانے پر یہ انسان کا بنایا ہوا تیز ترین خلائی جہاز بھی ہے۔

58,536 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہوئے یہ خلائی جہاز امریکا کے ایسٹرن ڈے لائٹ ٹائم کے مطابق صبح 7:49 پر، جبکہ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق شام 4:50 منٹ پر پلوٹو کے قریب سے گزرا۔ اس وقت اس کے اور پلوٹو کے درمیان صرف 12,500 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔

اس موقع پر مشن آپریشنز مینیجر ایلس بومین کا کہنا تھا کہ انہیں یقین نہیں آرہا کہ وہ یہ ہوتا ہوا دیکھ رہی ہیں۔ "یہ بہت حیران کن ہے کہ کس طرح انسان ان دنیاؤں تک پہنچ رہا ہے، اور پلوٹو کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا بہت زبردست ہے۔"

نیو ہورائزنز مشن کے سربراہ محقق ایلن اسٹرن نے اسے جشن کا لمحہ قرار دیا، اور کہا کہ اب اس خلائی جہاز سے جلد ہی اتنا ڈیٹا موصول ہوگا، کہ سائنسدانوں کو پلوٹو کے بارے میں نئی کتابیں لکھنی پڑیں گی۔

اسٹرن نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، "ہم نے نظامِ شمسی کی ابتدائی پڑتال مکمل کر لی ہے۔ یہ کام صدر (جان ایف) کینیڈی نے 50 سال قبل شروع کیا تھا، اور آج صدر (باراک) اوباما کے تحت جاری ہے۔"

478 کلوگرام وزنی یہ خلائی جہاز امریکا کی جان ہوپکنز یونیورسٹی کی اپلائیڈ فزکس لیبارٹری اور ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے تیار کیا ہے۔

پلوٹو زمین سے 4 ارب کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہے، جبکہ اس کا قطر صرف 2370 کلومیٹر ہے، جس کی وجہ سے زمین پر اور زمین کے مدار میں موجود طاقتور ترین دوربینیں بھی اس کی واضح تصاویر لینے میں ناکام تھیں۔

نیو ہورائزنز مشن کے مقاصد میں پلوٹو کے جغرافیے، اس کے کرہء ہوائی (atmosphere) اور دیگر خصوصیات پر تحقیق کرنا شامل ہے۔

یہاں تک کہ نیو ہورائزنز کی جانب سے تازہ ترین پیمائش کے مطابق پلوٹو کا سائز پچھلی پیمائشوں سے 5-4 کلومیٹر زیادہ ہے۔

یہ خلائی جہاز اب پلوٹو اور اس کے 5 چاندوں کی تصاویر سائنسدانوں کو ارسال کرے گا، جس سے سائنسدانوں کو اس بونے سیارے کے بارے میں مزید جاننے میں مدد ملے گی۔

اس کے بعد یہ پلوٹو کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جائے گا، اور نظامِ شمسی کے حصے کائپر بیلٹ تک جا کر سائنسدانوں کو نئی معلومات فراہم کرے گا۔

ناسا کے مطابق نیو ہورائزنز اس وقت نامعلوم حالات میں ہے، اور اس سے اس وقت کوئی سگنل موصول نہیں ہو رہے۔ یہ کل بدھ 15 جولائی کو سائنسدانوں کو اپنی خیریت کا پہلا سگنل بھیجے گا، اور اس کے ساتھ ساتھ مزید تصاویر بھی بھیجے گا، جو اس نے 12,500 کلومیٹر کے اپنے قریب ترین فاصلے سے لی ہیں۔

یاد رہے کہ یہ خلائی جہاز 2006 میں لانچ کیا گیا تھا، اور اسی سال پلوٹو کو اپنے چھوٹے سائز کی وجہ سے سیارے کے درجے سے گھٹا کر بونے سیارے کا درجہ دیا گیا تھا۔

نیو ہورائزنز پہلا خلائی جہاز ہے جو پلوٹو کے قریب سے ہو کر گزرا ہے، اور اس پر نصب 7 سائنسی آلات پلوٹو کی سطح، اس کی ارضیات، اس کی فضا، اور اس کے 5 چاندوں کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں