شاہ: برہنہ پیر کامیابی کا سفر

26 اگست 2015
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اولمپک میڈل جیتنے کے بعد وطن واپسی فلم کا اختتام ہے، تو ایک بار پھر سوچ لیں.
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اولمپک میڈل جیتنے کے بعد وطن واپسی فلم کا اختتام ہے، تو ایک بار پھر سوچ لیں.

یہ کوئی پریوں کی کہانی نہیں اور نہ ہی غربت سے امارت تک پہنچنے کی داستان، کم از کم اس کا مرکزی نکتہ تو یہ نہیں، بلکہ ایک ایسی کہانی ہے جو بتاتی ہے کہ کس طرح نظام آپ کو ناکام بناتا ہے۔

یہ وہی کہانی ہے جو متعدد پاکستانیوں کی ہے خاص طور پر ایسے ایتھلیٹس کی جو ملک کے زیادہ 'گلیمرس' کھیل جیسے کرکٹ کا حصہ نہیں، اگر ہم حکومت کو جگانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے نظام میں زیادہ شفافیت اور اس ملک کی عظمت کے لیے اپنا خون، پسینہ اور آنسو بہانے والے کھلاڑیوں کو ان کا حقیقی حصہ دینا ہوگا۔

یہ فلم وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے اس کہانی کا آغاز ہوا. شاہ ایک بچے کے طور پر ان کے اپنے الفاظ میں ایک ' فٹ پاتھیے' تھے اور پھر بتدریج پتا چلتا ہے کہ کس طرح باکسنگ اس بچے کو گلیوں سے نکال کر لے گئی۔ شروع میں تو فلم کی رفتار سست محسوس ہوتی ہے مگر 10 یا 15 منٹ کے بعد آپ اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس فلم میں ایک کلاسیک مگر سادہ فارمولا آغاز کے لیے استعمال کیا گیا یعنی ایک انٹرویو اور شاہ کی کہانی فلیش بیکس میں بیان کرنا مگر اس نے کام کیا ہے۔

کرن چوہدری نے فلم میں ایک صحافی نور کا کردار ادا کیا ہے جو کہ اس فلم میں نمایاں واحد خاتون کردار ہے اور وہ کردار پہلے ہاف میں ہی خاموشی سے کہیں گم ہوجاتا ہے۔ مگر ان کی عدم موجودگی کا کوئی نوٹس تک نہیں لیتا کیونکہ وہ کردار بہت زیادہ ضروری نہیں تھا۔ وہ شاہ کی تلاش میں سرگرم صحافی ہوتی ہے مگر فلم میں کوئی اور لیجنڈ باکسر کا انٹرویو لینے کے لیے موجود ہوتا ہے۔

کیا آپ کو یاد ہے جب آپ چھوٹے تھے تو آپ کو کتنی بار اچھا بننے، اچھا کام کرنے اور جواب میں اچھی چیزوں کے ملنے کا کہا جاتا تھا؟ عدنان سرور کی فلم شاہ کے ہیرو کا خلاصہ بھی ایک اچھے لڑکے کے طور پر کیا جاسکتا ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو اسے بتایا جاتا ہے، وہ کبھی سیدھے راستے سے نہیں بھٹکتا یہاں تک کہ وہ اپنے حق سے بھی محروم ہوجاتا ہے. وہ دیاتندار ہوتا ہے اور اپنے دوستوں سے تعلق اس وقت بھی برقرار رکھتا ہے جب وہ گینگز کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ سوال نہیں کرتا اور ہر چیز کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کرتا ہے۔

اس کے جواب میں وہ ساﺅتھ ایشین گیمز میں لگاتار پانچ طلائی تمغے جیتنے میں کامیاب رہتا ہے اور اسے 88-1980 کے دوران ایشیاء کا بہترین باکسر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ یہ سب کامیابیاں حاصل کرتا ہے حالانکہ اس کے پیر ننگے ہی ہوتے ہیں، اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ ایک مناسب جوتا خرید سکے اور حکومتی وزیر جو اسے بھیجنے اور تنخواہ ادا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے (بمشکل دو سو روپے مہینہ جو شاہ کو کبھی ملتی ہی نہیں) جوتا خرید کر دینے سے انکار کردیتا ہے۔

اگر آپ کا خیال ہے کہ فلم کا اختتام 1988 کے سیؤل اولمپکس میں شاہ کے کانسی کا تمغہ جتینے اور وطن واپسی پر آبائی علاقے میں جشن سے ہوتا ہے تو آپ غلط ہیں. جان لیں کہ یہ تو محض آغاز ہے بلکہ اس میں بعد کی زندگی اور فلم کے کردار کو بدلتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اکثر دوہرایا جانے والا جملہ "عزت سے پیٹ نہیں بھرتا"، شاہ میں صحیح معنوں میں نظر آتا ہے۔

شاہ کا سب سے بہترین حصہ؟ یہ شکر چڑھی گولی نہیں، یہاں تک کہ 'حب الوطنی' کے نام پر بھی نہیں۔ نظام کرپٹ ہے اور واحد شخص جو اس سے بچ سکتا ہے وہ آپ خود ہیں۔ یہ پیغام بالکل واضح ہے اور جیسا میں نے کہا کہ اس میں ایسا کچھ نہیں جس کا تجربہ یا احساس بیشتر پاکستانیوں کو نہ ہوا ہو۔

جو چیز زیادہ زیادہ فرحت بخش ہے وہ یہ کہ عدنان سرور نے مرکزی کردار کو نبھاتے ہوئے خود کو ایک سلیبرٹی کے طور پر پیش نہیں کیا، متعدد اچھے اداکار فلم میں خود کو اسٹارز ہی سمجھتے ہیں اور بہت کم ہی اپنے کردار میں گم ہوتے ہیں، فلم دیکھتے ہوئے آپ بہت جلد بھول جاتے ہیں کہ عدنان ایک کردار ادا کررہا ہے کیونکہ فلم میں وہ شاہ ہے. اس نے حقیقی باکسر کے نرم و شیریں انداز، شرمیلے اطوار، لہجے اور میک اپ کے ذریعے خود کو اس حد تک تبدیل کرلیا ہے کہ ایک مقام پر تو وہ اور حقیقی شاہ بھائی نظر آنے لگتے ہیں۔ عدنان کردار کے تقاضوں کے مطابق عام روپ میں نظر آنے سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔

فلم پر جو اعتراض ہمیں ہے وہ معمولی ہے، ساحل کے مناظر کو چھوڑ کر ایسا لگتا ہے کہ اسے کراچی کے بجائے لاہور میں عکس بند کیا گیا ہے. سرخ اینٹوں کی عمارات والی گلیاں اور بیشتر ایکسٹراز نے اچھا کام کیا ہے اور 'مناسب حد تک' غریب' نظر آئے ہیں مگر وہ لیاری یا اس کے باسی نہیں۔ اس امر نے ہمیں ذاتی طو رپر فلم میں گم ہونے نہیں دیا حالانکہ اس کی کہانی توجہ حاصل کرلینے والی ہے۔

کوئی بھی کھیل رقص جیسا ہوتا ہے، جس میں آپ کھلاڑیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار دیکھنا چاہتے ہیں، آپ ایکشن کو قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے مجموعی تناظر کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس فلم کے بیشتر مار دھاڑ والے مناظر رنگ کے اندر موجود افراد کے تناظر سے فلمائے گئے ہیں، اور رنگ سے باہر والوں کا خیال نہیں کیا گیا. مگر جیسا کہ ہم نے کہا کہ یہ خامیاں بہت چھوٹی ہیں اور اس سے کہانی پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

آخر میں فلموں کی کارپوریٹ اسپانسر شپ کے بارے میں بہت باتیں ہورہی ہیں، جب تک ہمارے پاس ایسی پروڈکشن کمپنیاں نہیں ہوں گی جو اپنے پراجیکٹس پر کارپوریٹ اسپانسر شپ کی جگہ اپنے سرمائے کو استعمال کرنے کی خواہشمند ہو، اس وقت تک مختلف برانڈز اور مصنوعات کو یہاں اور وہاں دیکھنا پڑے گا۔

اپنی برانڈ یا پراڈکٹ کا اثر تخلیق کرنے کے لیے آپ کو اسے ہر دس منٹ بعد دکھانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی آپ کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ مرکزی کردار ہیروئن کو شادی کی پیشکش ایک آئسکریم کون پکڑے ہوئے کرے (جیسا ایک حالیہ فلم میں دیکھنے میں آیا) کیونکہ یہ حد سے باہر نکلنا ہے اور اس سے فلم ایک فیچر فلم کے بجائے ایک کمرشل نظر آنے لگتی ہے۔

اور شاہ میں شکر ہے کہ اگرچہ برانڈز تو موجود تھے مگر بیک گراﺅنڈ میں تھے۔ اور بھلے ہی وہ موجود ہیں لیکن شاہ کو ایک باکسنگ میچ جیتنے کے لیے ان کی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہی وہ اسے وہ جوتے خریدنے میں مدد دیتے ہیں جن کی اسے سخت ضرورت تھی.

انگلش میں پڑھیں.

تبصرے (1) بند ہیں

Mohammad Ayub Khan Aug 27, 2015 09:11am
shah this story belongs to many of us. I was terminated on demand of a post doctrate leave without pay for one year and now I am a professor in one of the most prestigeous university of world. my works are cited by many people and i m author of many books. I am proud of myself. I am proud of you. keep it up.