بینظیر قتل کیس: ناہید خان کی فریق بننے کی درخواست

07 ستمبر 2015
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو
ناہید خان — فائل فوٹو/ اے پی
ناہید خان — فائل فوٹو/ اے پی

راولپنڈی: سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی چیئر پرسن بینظیر بھٹو کی سابقہ پولیٹیکل سیکریٹری ناہید خان نے بینظیر قتل کیس میں فریق بننے کے لیے مقدمے کی نقول حاصل کرنے کی درخواست راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں جمع کروا دی۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو 14 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کردیئے۔

عدالت کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ناہید خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بینظیر بھٹو قتل کیس کے ریکارڈ تک رسائی کی درخواست دی ہے اور اب کیس پر جو بھی بات ہوگی وہ عدالت میں ہوگی۔

ناہید خان نے ایک بار پھر تصدیق کی کہ وہ وقوع کے وقت بینظیر بھٹو کے ساتھ گاڑی میں موجود تھیں۔

ایک سوال کے جواب میں ناہید خان کا کہنا تھا کہ جس قسم کا رویہ ان کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے اس پر ان کا حق ہے کہ وہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔

مزید پڑھیں: ’ناہید خان نے بینظیر کو سن روف سے ہاتھ لہرانے کو کہا‘

انھوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی وکلاء کی ٹیم کی تجویز کے بعد فیصلہ کریں گی کہ اس مقدمے میں کس طرح شامل ہونا ہے۔

اس موقع پر ناہید خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ بینطیر بھٹو قتل کیس میں ناہید خان کی درخواست عدالت نے سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سرکار، درخواست گزار اور خصوصی پراسیکیوٹر کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ عدالت نے 14 ستمبر تک کیس کا تمام ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بیان دیتے ہوئے زرداری ہاؤس کے ڈرائیور جاوید رحمان نے بتایا تھا کہ ناہید خان نے سابق وزیراعظم اور پی پی پی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کے روز لیاقت باغ میں جلسے کے بعد گاڑی کی چھت سے شرکاء کی جانب ہاتھ ہلانے کا مشورہ دیا تھا۔

ڈرائیور نے بے نظیر قتل کیس میں بیان دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ناہید خان نے بے نظیر بھٹو کے ملازم رزاق میرانی کو گاڑی کا سن روف کھولنے کو کہا تھا۔

جاوید نے عدالت کو بتایا کہ جلسے کے اختتام پر بے نظیر بھٹو کے لیاقت باغ سے روانہ ہونے سے پہلے ہی ان کے اسکواڈ کی چار بیک اپ گاڑیاں جا چکی تھیں اور ان میں سے ایک گاڑی میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک بھی موجود تھے۔

جاوید نے جرح کے دوران مزید کہا کہ ان کے بھائی خضر حیات رحمان ملک کی گاڑی چلا رہے تھے۔ جاوید کے مطابق، بے نظیر بھٹو پر حملے کے 20 منٹ بعد خضر کا ٹیلی فون آیا کہ رحمان ملک پوچھ رہے ہیں کہ وہ(جاوید) ابھی تک زرداری ہاؤس کیوں نہیں پہنچے۔

اس پر جاوید نے خضر کو بتایا کہ بے نظیر بھٹو حملے میں زخمی ہیں اور وہ اس وقت چاندی چوک کے آس پاس ہیں۔ جاوید نے بتایا کہ بے نظیر کے زخمی ہونے پر ناہید نے انہیں جلدی ہسپتال پہنچنے کو کہا تھا۔

زرداری ہاؤس کے ڈرائیور جاوید رحمان کے بیان پر ناہید خان نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے نا تو بے نظیر بھٹو کو ہاتھ ہلانے کا مشورہ دیا اور نا ہی کسی کو سن روف کھولنے کو کہا تھا۔

ناہید نے کہا تھا کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی بے نظیر بھٹو کے قتل کے آٹھ سال بعد اس طرح کی چیزیں عدالت میں کیوں کہی جا رہی ہیں۔

’یہ دعوے ایک ایسے عینی شاہد کے ہیں جو آج بھی آصف علی زرداری کا ذاتی ملازم ہے۔ میں بیان کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یقیناً اپنا ردعمل دوں گی‘۔

ناہید نے بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات اور عدالتی کارروائی پر شبہات ظاہر کرتے ہوئے اسے ایک غیر معمولی کیس قرار دیا کیونکہ استغاثہ نے بے نظیر کے ساتھ گاڑی میں سوار افراد کا کوئی بیان ریکارڈ نہیں کیا۔

ناہید خان کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت ان کے علاوہ مخدوم امین فہیم اور صفدر عباسی بھی گاڑی میں سوار تھے، لیکن تفتیش کرنے والوں نے کبھی ان کا بیان لینے کیلئے رابطہ نہیں کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں