"یہ وہی ہے نا جو گندی کہانیاں لکھتا ہے؟"

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2015
کیا منٹو کے مرنے کے 60 برس بعد ہم اس فلم کے ذریعے انہیں وہ مقام دے سکے ہیں جس کے وہ حقدار تھے؟ — تصویر بشکریہ عائشہ جلال/http://now.tufts.edu
کیا منٹو کے مرنے کے 60 برس بعد ہم اس فلم کے ذریعے انہیں وہ مقام دے سکے ہیں جس کے وہ حقدار تھے؟ — تصویر بشکریہ عائشہ جلال/http://now.tufts.edu

گذشتہ 68 برس میں پاکستانی سماج کو جن خطوط پر پروان چڑھایا گیا ہے اس کے نتیجے میں یہی امید کی جا سکتی ہے کہ سعادت حسن منٹو جیسے بے باک اور سچے لکھاری پر بنائی جانے والی فلم بھی اس سماج کی طرح منافقت کا لبادہ اوڑھے ہوگی۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ فلم کی کاسٹ کیسی تھی، فنکاروں کی اداکاری کس معیار کی تھی، کیمرہ ورک کیسا تھا، وغیرہ وغیرہ۔

بنیادی طور پر یہ ایک بائیو پک ہے اور کسی بھی بائیو پک کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ فلم دیکھنے کے بعد حاضرین کا اس شخص سے درست تعارف ہوجائے جس پر وہ فلم بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں کچھ تکنیکی مسائل بھی ہیں جیسا کہ کیمرہ ورک سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک ٹیلی ویژن ڈرامہ بڑی اسکرین پر دیکھا جا رہا ہے۔

لیکن تکنیکی مسائل اپنی جگہ، یہاں صرف یہ دیکھنا ہوگا کہ منٹو کے مرنے کے 60 برس بعد کیا ہم اس فلم کے ذریعے منٹو کو وہ مقام دے سکے ہیں جس کا وہ حقدار تھا؟ آپ بہتر جانتے ہیں کہ ہمارے سماج میں منٹو کا تعارف کچھ اچھا نہیں ہے، منٹو کے بارے میں ایک عام رائے ہے کہ وہ فحش نگار تھا۔ جو اکثریت اس رائے کو تسلیم کرتی ہے انہوں نے کبھی منٹو کو پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی وہ لوگ کوشش کرنا چاہتے ہیں، محض عمومی رجحان کی پیروی میں وہ ببانگ دہل یہی بات دہراتے ہیں۔

اس فلم کو دیکھنے والی اکثریت بھی انہی لوگوں کی ہے۔ قابلِ ذکر اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس فلم کی بدولت نہ صرف اس غلط رجحان کو مزید تقویت ملے گی بلکہ سعادت حسن منٹو پر ایک ایسے شرابی کا لیبل بھی لگ جائے گا جو اپنی بیمار اولاد کے لیے دوا کے بجائے اپنے لیے شراب کو ترجیح دیتا ہے۔ جبکہ منٹو صاحب کے اپنے الفاظ آج بھی محفوظ ہیں کہ "جب میں اپنی بیٹیوں کی کوئی فرمائش تنگدستی کی بناء پر پوری نہیں کر پاتا تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔"

منٹو صاحب شراب پیتے تھے لیکن یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ فلم میں سعادت صاحب کو شراب کے حصول کے لیے حیوانیت کا مظاہرہ کرتے دکھایا گیا ہے۔ منٹو صاحب کے افسانے 'ممی' اور 'بابو گوپی ناتھ' اس بات کے گواہ ہیں کہ شراب نوشی کے باوجود انہوں نے خود کو انسانیت کے بلند تر مقام سے کبھی نیچے نہیں گرایا۔ عصمت چغتائی کہتی ہیں "میں کبھی نہ سمجھ سکی کہ منٹو پی کر بہکتا ہے یا بہک کر پیتا ہے۔"

پڑھیے: 'منٹو کو صفیہ سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا تھا'

اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثریت کی جانب سے اس فلم کو بہت پذیرائی ملی ہے لیکن اس ضمن میں فلم بینوں کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ یہ وہ اکثریت ہے جس کو ادب سے کوئی لگاؤ نہیں، جو دائیں بازو، بائیں بازو، اشتراکیت، اشتمالیت اور سرمایہ دارانہ نظام جیسی اصطلاحات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، جو تاریخ کے بارے میں صرف وہی معلومات رکھتے ہیں جو انہیں سرکاری مطالعہء پاکستان میں پڑھائی گئی ہے۔

ہندوستان کی آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاست اور ان دونوں جماعتوں کے متوازی مارکسسٹ جد و جہد کے بارے میں کوئی معلومات نہ رکھنے والی یہ اکثریت کبھی نہ سمجھ سکے گی کہ منٹو نے اپنے افسانے کس پس منظر میں تحریر کیے ہیں۔

فلم بین تو کجا فلم بنانے والے خود منٹو سے ناواقف معلوم ہوتے ہے، مذکورہ فلم اس بات کی گواہ ہے کہ فلم بنانے والوں نے بھی منٹو کو محض فلم بنانے کے مقصد سے پڑھا ہے جس کے نتیجے میں فلم بنانے میں سنگین غلطیاں کی گئی ہیں۔ ایک طرف تو فلم میں صرف 1947 کے بعد کے واقعات کو فلمایا گیا ہے جبکہ دوسری طرف منٹو کو افسانہ "ہتک" لکھتے دکھایا گیا ہے جو منٹو نے 1944 میں لکھا تھا۔

فلم میں منٹو کا تعارف کروانے کے بجائے اس کے کچھ افسانوں کو فلمایا گیا اور انہیں جوڑ کر وقت پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جبکہ دیانت داری کے بجائے خود ساختہ سنسر شپ کو ترجیح دیتے ہوئے ان افسانوں کو اس انداز سے فلمایا گیا ہے کہ تمام مفہوم اور مرکزی خیال ہی تبدیل کر دیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر جنہوں نے منٹو کو پڑھ اور سمجھ رکھا ہے وہ بہتر جانتے ہیں کہ 'ہتک' کی مرکزی کردار سوگندھی کے کمرے میں کون سی تصویریں پائی جاتی تھیں اور فلم میں کیا ظاہر کیا گیا ہے۔ اس فلم میں وہ منٹو نہیں دکھایا گیا جس کے کمرہ میں بھگت سنگھ کا مجسمہ رکھا تھا، جو افسانہ نگاری میں روسی ادیب میکسم گورکی سے متاثر تھا، جس نے کارل مارکس، اقبال، گاندھی، اور جناح پر قلم اٹھایا، جس نے ہندوستان میں مارکسسٹ تحریک کو موضوع بنایا، جس نے طلباء پر پولیس تشدد سے متعلق لکھا، جس نے "عصمت فروشی"، "ترقی یافتہ قبرستان"، "گناہ کی بیٹیاں، گناہ کے باپ" جیسے لازوال اور حقیقت پسند مضمون لکھ کر غلیظ سماج کو اس کا اصل چہرہ دکھایا، جس نے تقسیم کے دوران اور بعد ہونے والی قتل و غارت کو کھل کر حیوانیت کہا۔

پڑھیے: سعادت حسن اور منٹو

اس فلم میں اس منٹو کو نہیں دکھایا گیا جس نے "چچا سام کے نام خطوط" میں اس خطے میں امریکی مداخلت اور جہاد کے نام پر مذہب فروشی و قتل و غارت گری کا لبادہ چاک کیا، ہمیں وہ منٹو دیکھنے کو نہیں ملا جس کی نظر اگلے 50 برس سے بھی آگے دیکھتی تھی۔

یہ بات بہت معنی رکھتی ہے کہ منٹو کی ہزاروں تحریروں میں سے 'ہتک'، 'ٹھنڈا گوشت'، 'اوپر نیچے اور درمیان'، اور 'کھول دو' جیسے افسانوں کو فلما کر یہ سب ٹکڑے ملا دیے جائیں اور فلم بنانے کا دعویٰ کیا جائے۔ درج بالا افسانوں میں نہ معلوم کیا ایسا ہے جسے فحش نگاری کہا جاسکے، ان افسانوں میں تو منٹو صاحب نے سماجی ناانصافی اور غلاظت کو بے نقاب کیا ہے جبکہ فلم میں اسے فحش تحریر بتایا گیا ہے۔ بنیادی طور پر متنازع افسانوں کو فلمانے کا مقصد ہی توجہ کا حصول تھا، اور فلم کا مقصد پیسہ کا حصول، جس میں وہ کامیاب رہے۔

ان صاحبان کی ذہنی سطح اس قدر نہیں کہ وہ 'بو'، 'اللہ دتا'، یا 'بلاؤز' جیسے افسانوں کی نفسیات کو سمجھ سکیں، یا بیان کر سکیں کہ 'ترقی یافتہ قبرستان' میں سماج کے کس ضابطے پر تنقید کی گئی ہے۔

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ منٹو کے جن افسانوں کو فلمایا گیا ہے وہ محض فلم کی مقبولیت بڑھانے کی غرض سے شامل کیے گئے ہیں اور ان میں مزید مرچ مصالحے اور عامیانہ جملہ بازی کا استعمال کر کے ایک مخصوص طبقے کو فلم دیکھنے کی جانب راغب کیا گیا ہے، فلمائے گئے افسانوں کے حوالے سے اس منٹو کو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے دکھایا گیا ہے جس نے کبھی سرکاری و عدالتی سنسر شپ کی بھی پرواہ نہیں کی۔

انتہائی حساس طبیعت کے مالک سعادت حسن منٹو کو حلقہء اربابِ ذوق میں ایک ایسے شدت پسند کے روپ میں پیش کیا گیا ہے جو کسی دوسرے کی بات سننے کا روادار نہیں اور بھری محفل میں دوسروں پر عامیانہ جملے بازی کرتا ہے حالانکہ اگر منٹو کا وہ مضمون پڑھا جائے جو انہوں نے احمد ندیم قاسمی کے مضمون کے جواب میں لکھا تھا تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سعادت صاحب اپنے خلاف اٹھنے والی شدید ترین آوازوں اور تحریکوں کو بھی کسی خاطر میں نہ لاتے اور اس پر براہ راست مزید تبصرے سے بھی گریز کرتے۔

جانیے: جنسی رویوں پر بات کرنا منع ہے

ہمارے آج اور مستقبل کے سماج اور آئندہ نسلوں کے لیے انتہائی پریشان کن امر یہ ہے کہ منٹو جیسے حساس اور سچے ادیب کا چہرہ بری طرح مسخ کر دیا گیا ہے۔ عوام کی اکثریت کی نفسیات ایسی ہے کہ وہ منٹو کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنے کے لیے ان کی تحریروں کے بجائے سنی سنائی باتوں اور اس فلم پر انحصار کرے گی۔

یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا کے منٹو فلم کے نام پر جو کچھ بھی اس قوم کو دیکھنے کو ملا ہے وہ بجا طور پر کارپوریٹ میڈیا اور ضیاء الحق کے آمرانہ دور کی باقیات کی پیداوار ہے۔ اگر مختصراً کہا جائے کہ اس فلم میں اس سعادت حسن منٹو کو بیچ دیا گیا ہے جو خود کبھی نہیں بکا تو غلط نہ ہوگا، فلم بنانے والوں کا واحد مقصد فلم کی کامیابی تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے ہیں لیکن منٹو صاحب پر فحش نگار شرابی کا ٹھپا بھی لگا گئے ہیں۔

ہماری آئندہ نسلوں کے سامنے جب بھی منٹو صاحب کا نام لیا جائے گا تو شاید یہی سننے کو ملے جو فلم کے ایک سین میں منٹو صاحب کو کوٹھے پر خوش آمدید کہنے والی طوائف کہتی ہے "یہ وہی ہے نا جو گندی کہانیاں لکھتا ہے؟"

ضرور پڑھیں

تبصرے (14) بند ہیں

طارق مراد بلوچ Oct 15, 2015 07:06pm
بہت اعلی غضنفر صاحب۔ آپ سو فیصد درست فرما رہے ہیں۔
Akhtar Hafeez Oct 15, 2015 07:18pm
منٹو نے سماج کی فرسٹریشن کو اپنی کہانیوں میں بیان کیا ہے۔ ہم ان کی کہانیوں کو برا سمجھتے ہیں لیکن اس سماج کو نہیں جس میں ہم جی رہے ہیں، جس میں ہم ہر وہ برائی کرتے ہیں جس کا ذکر منٹو نے اپنی کہانیوں میں کیا ہے مگر پھر بھی منٹو ہی ہمارے لیے برا ہے۔
حافظ Oct 15, 2015 07:44pm
بہت خوب، لیکن میرا نہیں خیال کہ ایک فلم منٹو کا چہرہ مسخ کر دے گی۔ آئندہ جب بھی کو ئی صحیح الدماغ منٹو کا خود مطالعہ کرے گا وۃ بھی اسی نتیجہ پر پہنچے گا جس پر آپ پہنچے ہیں۔ مطالعہ شرط اول ہے۔ آپ کے بلاگ کا بہتریں جملہ ہے "جو تاریخ کے بارے میں صرف وہی معلومات رکھتے ہیں جو انہیں سرکاری مطالعہء پاکستان میں پڑھائی گئی ہے۔" لکھتے رہییے گا۔
Kashif Oct 15, 2015 07:46pm
محترم غضنفر صاحب۔ نہائت احترام کے ساتھ آپ کے تبصرے سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں نے منتو کو پڑھا بھی ہے۔ اور اس کے کرداروں کوُمحسوس بھی کیا ہے۔ فلم جیسی بھی بنی ہے، اس سے قطع نظر، میری نسل کے ۹۰ فی صد لوگوں نے منٹو کو کبھی نہیں پڑھا، کسی کے پاس منٹو کی آواز، کوئی صوتی یا بصری شہادت تک موجود نہیں، فلم کا دورانیہ کم رکھنے کے لئے بہت سی چیزوں پر سمجھوتہ بھی کیا گیا۔ مگر جو پیغام دنیا کو پہنچانا تھا، وہ بھرپور طریقے سے پہنچا۔ سرمد کھوسٹ اور انُکی تمام ٹیم داد کی مستحق ہے جن کی بدولت آج میری نسل کے لوگوں کا منٹو سے بھرپور تعارف ہو چکا۔ اور میں نے لوگوں کو منٹو کی کتابیں خریدتے پایا ہے۔ سب سے بڑی کامیابی یہ ہے، کے آپ کو یہ تبصرہ لکھنے کی تحریک فراہم کی، کیا اپ نے پہلے منٹو پر کچھ لکھنے کی کوشش کی؟
سہیل یوسف Oct 15, 2015 08:07pm
مصنف سے 100 فیصد اتفاق ، لیکن کیا کرشن چندر نے سچی کہانیاں نہیں لکھیں۔ کیا شوکت صدیقی نے جانگلوس میں معاشرے کا چہرہ نہیں دکھایا ۔ پلیز منٹو کے علاوہ دیگر نظرانداز کردہ مصنفین کو بھی ان کا مقام دیں۔
Weqaar Nayyar Oct 15, 2015 08:14pm
غضنفر صاحب نے بلاشبہ بہت اچھا لکھا ہے اور اُن پہلوؤں پر خاص نظر کی ہے جو عام قاری یا ناظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ لیکن ضیاءالحق کی باقیات کے الفاظ لکھ کر غالباً اپنے اندر کی فرسٹریشن کو بھی راستہ دیا ہے۔ اگر باقیات کی بات کریں گے تو پھر ہم سب کسی نہ کسی کی باقیات کا ہیش ٹیگ لگائے گھوم رہے ہونگے۔
حسن امتیاز Oct 15, 2015 08:35pm
غضنفر علی صاحب: نے کافی محنت سے اچھا اور معیاری مضمون تحریر کیا ہے ۔ لیکن مجھے ان کے مضمون کے مرکزی نقطہ سے اختلاف ہے ۔ میرے خیال میں : کسی بھی اعلی شخصیت پر تبصرہ ، فلم ، ڈرامہ وغیرہ بننے سے اس شخصت کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا میرا نہیں خیال ، اس فلم جس کو ایک نیا تبصرہ بھی کہا جاسکتا ہے ، آخری تبصرہ ہے جناب غضنفر علی صاحب خود کالم و افسانہ نگاری کرتے ہیں۔اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پڑھنے والوں کی اکثریت خود مصنف کی تحریر پڑھا کر اس کے اچھے یا برا ہونے کی مارکنگ کرتے ہیں۔ نہ کہ اس شخصیت پر لکھے گئے تبصرہ سے اس ہی لئے 1950 سے لے کر اب تک منٹو صاحب کے خلاف بے شمار تبصرہ ہوچکے ہیں۔ لیکن منٹو صاحب کی کتب آج بھی چھاپ رہی اور فروخت ہو رہی ہے ۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 15, 2015 08:47pm
کارپوریٹ کلچر کے نقاب کو عمدہ ترین طریقے سے محترم غضنفر صاحب نے اجاگر کیا ہے۔ مخصوص اور ایک ہی کیٹیگری کے افسانوں کو موضوع بنا کر فلم بنانے والے یقینی طور پر تھیوکریٹک ہیں اور تھیوکریسی کی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ منٹو نے معاشرہ کی ڈھکی چھپی حالت زار کو چند افسانوں میں قلمبند کیا جسے فحش نگاری سے مربوط کر دیا گیا۔ فلم میں باقی افسانوں کو جگہ نہ دینا خاص کر منٹو کا سنہری لفظوں میں لکھا جانے والا افسانہ ‘ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کے مرکزی خیال کو فلم میں اجاگر نہ کرنا فلم بنانے والوں کی تھیوکریٹک ذہینت کو ثابت کر دیتا ہے۔ منٹو پر بننے والی یہ فلم اصل میں سرکاری معاشرتی علوم کی کتاب ہی کی وڈیو کاپی ہے !
shamshad samo Oct 15, 2015 10:15pm
Mantho disclosed the evils of society and it shows us mirror. thats why people can not digest reality and they blame on it.
Bewkoof Oct 16, 2015 09:47am
I agree with your points but all these critics are not much useful. Why? Because films always made to earn money not to correct someone's personal image. And film makers make it specially only for people who actually understand manto's mentality than they couldn't earn that much. So :-)
Inder Kishan Oct 16, 2015 09:58am
@حافظ جناب، میری رائے ہے کہ جن لوگوں نے بھی یہ فلم دیکھی ہے ان کے پاس اتنا ٹائم ہی نہیں ہوگا کہ وہ منٹو کا تفصیلی مطالعہ کریں۔ معاشرے کے گند کو بے نقاب کرنے کو فحش نگاری کہا جائے تو یہ وہی بات ہوگی کہ شتر مرغ اپنی گردن ریت میں دبا دے!
ghulam zahira Oct 16, 2015 02:49pm
منٹو ایک عظیم افسانہ نگار تھا ،اس نے سماجی برائیوں کو جس طرح سے بے نقاب کیا ۔بڑے حوصلہ کی بات ہے
اظہر مشتاق Oct 16, 2015 06:50pm
﷽بہت جامع تبصرہ اور فلم "منٹو" پر اب تک کے تبصروں میں ایک قدر مشترک ہے کہ مزکورہ فلم میں اصل منٹو کی ادبی خدمات اور اُسکی بے باک سماجی تنقید کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے فلم بینوں کے سامنے منٹو کو اخلاقیات سے بے بہرہ ایک شرابی انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سرمایہ دار معاشرے جہاں ادب اور فنونِ لطیفہ ذاتی سرمائے کو تقویت دینے کے لئے استعمال کئے جائیں اور دونو﷽ں شعبے قومیانے کا خیال بھی مٖفقود ہو ایک ادیب کا پوسٹ مارٹم ایسے ہی ہوتا ہے۔
توصیف احمد Oct 16, 2015 06:51pm
اس قوم سے اس قوم کی باتیں اسی کی زبان میں کی جائیں تو سمجھ آئیں گی بھئی۔ کامن سینس۔ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ سمیت چند روشن خیال مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کے علاوہ سبھی جاہل ہیں۔ مجھے پچھلے دنوں الیکشن کے دو دن بعد کا ایک پروگرام یاد آ گیا جس میں ایسے ہی ایک لبرل بابا جی نون لیگ کی خاتون ایم پی کو کہتے کہ آج آپ دوپٹہ پہن کے بیٹھی ہیں کل آپ برقعہ پہن کر بیٹھیں گی کیونکہ آپ ان لوگوں سے ڈرتی ہیں جو اس قوم کی تربیت کر رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی لڑکی ہوگی جو بیوروکریٹس کے ڈر سے دوپٹہ لیتی ہو گی طالبان بن جاتی ہو گی۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو بس پیدا پاکستان میں ہوئے، جن کی تعلیم مغربی، پرورش مغربی ، سوچ بھی مغربی، یا پھر پیسے کے لیے اور مذہب و ملت کی دوری کے باعث مغربی ہو گئے۔ بس یہاں رزق لگا ہوا سو رہ رہے ہیں۔ منٹو پہ تنقید کرنے والے لوگ وہی ہیں جنہوں نے میری طرح یہ افسانے پڑھے یا پھر کسی ایسے سے اس کے بارے میں سنا جس پہ وہ اعتماد کرتے ہیں۔ منٹو نے جتنی بھی اچھی بات کی جب عام آدمی کی زبان میں کی ہی نہیں تو عام آدمی سمجھے بھی کیسے؟ اب عام آدمی نہیں جاہل ہو ہے جس کو عام آدمی کی زبان نہیں آتی۔