ایک نغمہ لاہور کی یاد میں

ایک نغمہ لاہور کی یاد میں

اختر عباس

جب مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ مجھے لاہور سے شدید محبت ہے، تب میں آٹھ سال کا تھا۔

میرے ابو مجھے حجام کی دکان پر لے گئے تھے اور جب میں ایک صوفے پر بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا تو تیل بھرے بالوں کے ساتھ ایک لڑکا حجام کی کرسی پر آ بیٹھا۔ اپنے گاہک کے تیل سے بھرے بالوں کو دیکھ کر حجام بولا:

"بھائی جی، بال کٹوانے آئے ہو یا آئل چینج کروانے؟"

اس بات پر حجام کی دکان قہقہوں سے گونج اٹھی، اور میں اس شہر کے لوگوں کی زندہ دلی کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا۔

مسجد وزیر خان لاہور کے رخسار پر ایک تل کی مانند ہے. — فوٹو کاپی رائٹ خلیل شاہ۔ اس تصویر کے جملہ حقوق بحقِ فوٹوگرافر محفوظ ہیں۔
مسجد وزیر خان لاہور کے رخسار پر ایک تل کی مانند ہے. — فوٹو کاپی رائٹ خلیل شاہ۔ اس تصویر کے جملہ حقوق بحقِ فوٹوگرافر محفوظ ہیں۔

اس وقت لاہور کا سب سے حیرت انگیز میلہ بسنت کا ہوا کرتا تھا۔ جذبات اور رنگوں کی بات کی جائے تو یہ میلہ دنیا کے کسی بھی میلے کا مقابلہ کر سکتا تھا۔

ہم کئی مہینوں تک اس کی تیاریاں کرتے تھے؛ فروری کا دوسرا ہفتہ ہی عام طور پر اس میلے کا وقت ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو ہماری تیاریاں نومبر سے ہی شروع ہوجاتی تھیں۔ راتیں فلیش لائٹس سے جگمگاتیں تو دن بھر ڈھول بجتے رہتے۔

بسنت کے دنوں میں لاہور کی چھتیں اونچے کرایوں پر دستیاب ہوتیں، جبکہ گلیاں بھی پتنگیں لوٹنے والوں سے بھری ہوئی ہوتیں۔ — فوٹو کاپی رائٹ خلیل شاہ۔ اس تصویر کے جملہ حقوق بحقِ فوٹوگرافر محفوظ ہیں۔
بسنت کے دنوں میں لاہور کی چھتیں اونچے کرایوں پر دستیاب ہوتیں، جبکہ گلیاں بھی پتنگیں لوٹنے والوں سے بھری ہوئی ہوتیں۔ — فوٹو کاپی رائٹ خلیل شاہ۔ اس تصویر کے جملہ حقوق بحقِ فوٹوگرافر محفوظ ہیں۔

چھتیں رقصاں نوجوانوں سے اور آسمان لاتعداد رنگ برنگی پتنگوں سے بھرا ہوا ہوتا۔ ہر بسنت کے موقع پر ہم اندرونِ لاہور کی چھت پر جاتے اور بوکاٹا کے شور میں زندگی کا مزہ لیتے۔

— رائٹرز/فائل۔
— رائٹرز/فائل۔

اب وہ بسنت نہیں رہی۔

جب دھاتی ڈور اور ہوائی فائرنگ سے کئی اموات ہونے لگیں، تو موسمِ بہار کے اس میلے پر پابندی لگا دی گئی۔ بجائے اس کے کہ بیماری کا علاج کیا جاتا، پورے عضو کو ہی کاٹ کر الگ کر دیا گیا۔ اب لاہور کے آسمان بنجر ہو چکے ہیں۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں اپنے دنوں کے دوران میں اور میرے کچھ دوست ایک "تعلیمی دورے" پر قدیم شہر گئے۔ ہم پھجہ سری پائے ریسٹورنٹ گئے جو لاہور کے ہیرا منڈی علاقے میں واقع ہے۔

ایک دن جب ہم ریسٹورنٹ کی کرسیوں پر بیٹھے تھے تو ہمیں ایک دلچسپ کردار ملا۔

وہ شاہی محلے کا رہائشی تھا۔ اس نے اپنے علاقے کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیے۔ اس کے لیے شاہی محلہ ہی لاہور کی سب سے بہترین جگہ تھا۔ مجھے اس سے مکمل اتفاق ہے۔

بادشاہی مسجد۔ — فوٹو اختر عباس۔
بادشاہی مسجد۔ — فوٹو اختر عباس۔

اس کے مطابق شاہی محلہ مغل لاہور کا ثقافتی مرکز تھا۔ یہاں شہزادے اور نواب اپنی جوانی کا خاصہ وقت گزارتے اور دربار کے آداب اور رواج سیکھتے۔ درباری ہر چیز میں اپنی مثال آپ ہوتے، مگر جب ان کے سرپرست چلے گئے، تو وہ بھی جلد ہی ماضی کا قصہ بن کر رہ گئے۔

تقسیمِ ہند کے بعد کئی کلاسیکی گلوکار، رقاص اور موسیقار ہیرا منڈی سے ہی سامنے آئے۔ قومی ٹی وی پر مشہور ہونے کے بعد بھی پرانی میڈموں کے اس علاقے میں دفتر قائم رہے۔

اس نے افسوس کیا کہ زیادہ تر آرٹسٹ اب قدیم شہر کو چھوڑ کر زیادہ 'نفیس' علاقوں جیسے کہ گلبرگ، اقبال ٹاؤن اور سمن آباد میں منتقل ہوگئے ہیں۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے منشیات فروشوں نے پورا کیا ہے۔

ایک رکشے والا تنہائی میں چائے کا مزہ لے رہا ہے۔ 1990 کی دہائی میں تانگوں اور بگھیوں کی جگہ شور مچاتے رکشوں نے لے لی۔ — فوٹو کاپی رائٹ خلیل شاہ۔ اس تصویر کے جملہ حقوق بحقِ فوٹوگرافر محفوظ ہیں۔
ایک رکشے والا تنہائی میں چائے کا مزہ لے رہا ہے۔ 1990 کی دہائی میں تانگوں اور بگھیوں کی جگہ شور مچاتے رکشوں نے لے لی۔ — فوٹو کاپی رائٹ خلیل شاہ۔ اس تصویر کے جملہ حقوق بحقِ فوٹوگرافر محفوظ ہیں۔

"انہوں نے اس جگہ کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب یہاں سیکس ورکرز اور وہ ایس ایچ اوز بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو لاکھوں روپے دے کر یہاں پوسٹنگ حاصل کرتے ہیں تاکہ اس کمائی سے حج پر جا سکیں اور حاجی کی حیثیت سے ریٹائر ہو سکیں۔"

منٹو اگر یہ گفتگو سنتے تو ضرور اتفاق کرتے۔

کچھ سالوں بعد اس جادوئی دور کی یاد کے طور پر ایک بوڑھے شخص نے اپنی حویلی کو 'ککوز ڈین' کا نام دے کر تعمیر نو کروائی۔ دس سال بعد ککوز ڈین کے آس پاس بے ڈھنگے انداز میں بحال کی گئی حویلیاں کھڑی ہیں جہاں پر روایتی کھانے ایسے پیش کیے جاتے ہیں جیسے کہ کسی پرانے درخت پر زبردستی پلاسٹک کے پھول لگا دیے جائیں۔

"کچرے کے ڈھیر" نے اپنا کچرا شہر بھر میں پھیلا دیا ہے۔


لاہور کا مال روڈ، جسے ٹھنڈی سڑک کہا جاتا تھا، درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ ٹریفک کم ہوا کرتی اور ماحول خوشگوار ہوتا جس کی وجہ سے لکھاری اور شاعر حضرات اس سڑک پر اپنی چہل قدمی کو یاد کیا کرتے۔

پھر سڑک کشادہ کی گئی تو درخت کاٹ دیے گئے۔ اب نئے درخت دھول اور دھوئیں کے درمیان سہمے سہمے دکھائی دیتے ہیں۔

میں جس لاہور میں بڑا ہوا تھا، وہ اب گم ہو چکا ہے۔

پھجے کے پائے بھول جائیں، وہ جگہ کھو چکی شان و شوکت کی یادگار ہے۔ لاہوری اب پیزا اور برگر ریسٹورنٹس میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، جو نئی آبادیوں میں تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔

سنت نگر ساندھا ہو چکا ہے، ڈیوس روڈ کو سر آغا خان روڈ کہتے ہیں، مایو روڈ اقبال روڈ اور کوئنز روڈ فاطمہ جناح روڈ بن چکا ہے۔ ٹھیک ہے کہ لاہوریوں کو اب بھی ان کے پرانے نام یاد ہیں، مگر کب تک یاد رہیں گے؟

جب ہم سے پچھلی نسل باقی نہیں رہے گی، تو نوجوان ان چیزوں کو کیسے یاد رکھ سکیں گے جن کا انہوں نے کبھی کوئی تجربہ ہی نہیں کیا، جن سے ان کی کوئی وابستگی ہے ہی نہیں؟

ایک بالکونی سے بچے اس شہر کو دیکھ رہے ہیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے تیزی سے بدلتا جا رہا ہے۔ — فوٹو کاپی رائٹ خلیل شاہ۔ اس تصویر کے جملہ حقوق بحقِ فوٹوگرافر محفوظ ہیں۔
ایک بالکونی سے بچے اس شہر کو دیکھ رہے ہیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے تیزی سے بدلتا جا رہا ہے۔ — فوٹو کاپی رائٹ خلیل شاہ۔ اس تصویر کے جملہ حقوق بحقِ فوٹوگرافر محفوظ ہیں۔

ایک ایسی دنیا جہاں قدیم جگہوں کو کھود کر نکالا جاتا ہے اور ان پر فخر کیا جاتا ہے، ہم اپنی وراثت کو تخت پر براجمان حکمران کے نام سے بدلنے میں خوش رہتے ہیں۔

نواز شریف اور ان کے رفقاء بڑی تعمیرات میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان "آئرن مین" نے لاہور کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔

جب فیروز پور روڈ کے علاقے میں میٹرو بس شروع ہوئی تو بہت کم لوگوں نے اس بات پر توجہ دی کہ اس سے لاہور کا چہرہ بدنما ہونے کی حد تک بدل جائے گا۔

اچھرہ اور مزنگ جیسے علاقے اب آڑھے ترچھے کونوں کا ایسا جنگل لگتے ہیں جو صرف انسانی تعمیرات کا ہی نتیجہ ہو سکتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اورنج لائن ٹرین شہر سے وہ رہی سہی خوبصورتی بھی لے جائے گی۔

ان عمارتوں کو دیکھ کر میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ یہاں کون لوگ رہتے ہوں گے اور اس وقت یہ جگہیں کیسی ہوا کرتی ہوں گی۔ — فوٹو کاپی رائٹ خلیل شاہ۔ اس تصویر کے جملہ حقوق بحقِ فوٹوگرافر محفوظ ہیں۔
ان عمارتوں کو دیکھ کر میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ یہاں کون لوگ رہتے ہوں گے اور اس وقت یہ جگہیں کیسی ہوا کرتی ہوں گی۔ — فوٹو کاپی رائٹ خلیل شاہ۔ اس تصویر کے جملہ حقوق بحقِ فوٹوگرافر محفوظ ہیں۔

شالامار باغ، چوبرجی اور جی پی او جیسی جگہیں روزانہ سفر کرنے والوں کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں گی۔ اب وہ مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کے تصورات روشن نہیں کریں گی۔

اس کے بجائے صرف ایک ہجوم ہوگا جو اسٹیل سے بھرپور اور درختوں سے عاری سڑکوں کے جنگل میں گم ہوگا۔

نواز شریف کی اسٹیل سے محبت پر انہیں معاف کیا جا سکتا ہے مگر کیونکہ ان کا بھی ایک خاندان ہے، لہٰذا میں انہیں ایسی مثال دوں گا جسے وہ سمجھ سکیں گے۔

چوبرجی، جی پی او اور شالامار باغ جیسی جگہیں پرانی جنگوں، فتوحات اور شکستوں کی یادگاریں ہیں۔ یہ کئی جنگیں لڑ چکے سپاہی کے سینے پر آویزاں میڈل کی طرح ہیں۔

مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ کبھی کبھی پرانے شہروں کی موت ہوتی ہے اور نئے شہر ان کی جگہ لے لیتے ہیں، مگر کیا پرانے شہروں کی مشکل آسان کرنے کے لیے ان کے سینے میں خنجر اتار دینا درست ہے؟

بالآخر لاہور کی جگہ ایک نیا لاہور لے گا، مگر اسے آہستگی کے ساتھ اور نپے تلے انداز میں ہونا چاہیے۔

یہ شہر ان تمام چیزوں کی یادگار ہے جس سے ہم بحیثیتِ قوم گزرے ہیں۔ اس شہر کا گلا اتنی بے رحمی سے نہیں گھونٹنا چاہیے۔

لاہور شہر پر ہماری کہکشاں کا منظر۔ فوٹو اختر عباس۔
لاہور شہر پر ہماری کہکشاں کا منظر۔ فوٹو اختر عباس۔


اختر عباس پیشے کے اعتبار سے انجینیئر ہیں اور انسانی رویوں کے علم میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Akhtar5512@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔