لاہور: سندھ اور خیبر پختونخوا کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ممکنہ طور پر پنجاب حکومت کو احتساب عمل کا نشانہ بنائے جانے پر ایک حالیہ بیان میں وزیراعظم نواز شریف نے بیورو کو خبردار کیا ہے کہ وہ محتاط رہتے ہوئے کام کرے بصورت دیگر ان کے ہاتھ باندھے جاسکتے ہیں۔

وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ اگر نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے ان کے تحفظات دور نہ کیے تو ان کی حکومت قانون میں ترمیم کے حوالے سے سوچ سکتی ہے۔

خیال رہے کہ اس موقع پر وزیراعظم کا اندازِ بیان یہ واضح کررہا تھا کہ حکومت اور نیب کے درمیان 'سب اچھا' نہیں ہے۔

نیب کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'نیب حکومتی افسران کو حراساں کررہی ہے اور احتساب ادارے کی جانب سے حراساں کیے جانے کی وجہ سے وہ (بیوروکریٹس) کوئی بھی فیصلہ (مختلف منصوبوں کی فائلز پر دستخط کرنے کا فیصلہ) لینے سے ڈرتے ہیں۔ نیب حکومتی افسران کو ڈرا رہا ہے اور ان کی ڈیوٹی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہا ہے'۔

بہاولپور میں مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب بلدیاتی نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے مزید کہا کہ نیب حکام کرپشن اور دیگر الزامات کی تصدیق کیے بغیر 'معصوم لوگوں' کے گھروں اور دفاتر میں داخل ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں یہ معاملہ متعدد بار نیب چیئرمین کے نوٹس میں لایا ہوں۔ انھیں ہر صورت نوٹس لینا چاہیے۔ بصورت دیگر، حکومت اس حوالے سے قانونی اقدامات کرسکتی ہے'۔

اس سے قبل سندھ میں قائم پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے نیب کو صرف ان کی پارٹی کے خلاف کارروائی پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اُدھر خیبر پختونخوا کے احتساب کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل (ر) لیفٹیننٹ جنرل محمد حامد خان گزشتہ ہفتے 'صوبائی حکومت کی جانب سے احتساب ایکٹ 2015 میں ترمیم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے' مستعفی ہوگئے تھے۔

نیب ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ نیب کی جانب سے مختلف منصوبوں ایل این جی، میٹرو بس، اورنج ٹرین اور ایل ڈی اے سٹی کی 'مکمل' تحقیقات کے بعد وزیراعظم نے بیورو سے اپنی مایوسی کا اظہار کردیا ہے۔

اس کے علاوہ، نیب، رائیونڈ روڈ کی تعمیر اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں بھرتیوں کے حوالے سے بھی تحقیقات کا آغاز کرنے جارہا ہے.

ڈسکہ اور اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے کچھ لیگی قانون سازوں، پنجاب میں تعلیم اور کھیلوں کے وزیر رانا مشہود اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دیگر قریبی ساتھیوں کو بھی انکوائریوں کا سامنا ہے۔

نیب ذرائع نے بتایا کہ 'اہم چیز جو وزیراعظم نواز شریف کے لیے پریشان کن ہے وہ یہ کہ نیب کے چیئرمین (ن) لیگ کی حکومت کو بیورو کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دے رہے، جو نیب اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان موجود ممکنہ رابطے کے حوالے سے وزیراعظم کے شکوک و شبہات کو بڑھا رہی ہے'۔

تاہم نیب ترجمان نے اُس وقت کچھ کہنے سے معذرت کرلی جب ڈان نے ان سے میٹروبس، اورنج ٹرین، ایف آئی اے بھرتیوں، ایل این جی اور رائے ونڈ روڈ کی تعمیر کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات پر سوال کیا۔

ایڈووکیٹ سعد رسول نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نیب کو سیف الرحمٰن کے احتساب بیورو کی طرح بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے سے قبل ایک آرڈیننس جاری کرسکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'وزیراعظم کی جانب سے نیب کے حوالے سے آج ظاہر کی جانے والی ناراضگی یہ واضح کررہی ہے کہ وہ اس کے چیئرمین کے اختیارات میں کمی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آئین کے سیکشن 270 کے مطابق نیب کا چیئرمین انتظامی امور میں آزاد اور کسی کو جواب دہ نہیں ہوگا اور رپورٹس کے مطابق ترمیم کے بعد ممکنہ طور پر نیب کا سربراہ وزیراعظم ہوگا'۔

سعد رسول کا کہنا تھا کہ 'قانون میں صرف یہ طریقہ کار موجود ہے کہ اگر کسی کو نیب کے خلاف کوئی شکایت ہو تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے'۔

وزیراعظم نواز شریف کے مذکورہ بیان پر سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔

انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 'میاں صاحب، صرف نیب ہی نہیں آپ کی ایف آئی اے بھی یہی کام کررہی ہے۔ ڈاکٹر عاصم نے کرپشن نہیں کی اور آپ کے ایک وزیر بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں'۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پی پی پی نیب کے اختیارات میں کمی سے کچھ زیادہ کرنے کی خواہش مند ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پی پی پی پارلیمنٹ میں نیب کے حوالے سے آنے والی کسی بھی ترمیم کی مکمل حمایت کرے گی'۔

(مذکورہ رپورٹ کی تیاری میں بہاولپور سے ہمارے نمائندے ماجد گل نے مدد کی)

یہ خبر 17 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں