اسلام آباد: معروف پاکستانی وکیل نے تحفظ خواتین ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کردی۔

اس ایکٹ کو گزشتہ ہفتے صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے منظور کیا تھا جس کا مقصد خواتین کے خلاف گھریلو، نفسیاتی اور جنسی تشدد کو روکنا ہے۔

ایکٹ میں خواتین کے لیے ہاٹ لائن، پناہ گاہیں اور ضلعی سطح پر تحقیقاتی پینلز تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ ایکٹ کے تحت ملزمان کو جی پی ایس بریسلٹ پہننے ہوں گے۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں تحفظِ خواتین بل منظور

2011 میں رائٹرز کے ایک پول میں گھریلو تشدد، معاشی معاملات میں امتیازی سلوک اور تیزاب کے حملوں کے حوالے سے پاکستان دنیا کا تیسرا سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے وکیل محمد اسلم خاکی نے وفاقی شرعی عدالت سے درخواست کی ہے کہ قانون غیر اسلامی ہے اور مردوں کو مطلوبہ تحفظ فراہم نہیں کرتا۔

درخواست میں محمد اسلم کا کہنا تھا کہ ایکٹ میں شوہر کے پاس بیوی کے خلاف نفسیاتی اور ذہنی تشدد کی شکایت کا طریقہ کار موجود نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تحفظِ خواتین بل کو قانونی حیثیت مل گئی

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کے باعث فیملیز میں محاذ آرائی کی فضاء پیدا ہوگی اور ان میں فاصلے بڑھیں گے جبکہ اسلام اور آئین ان میں ہم آہنگی کا درس دیتا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ شوہر کو ہدف بنانے سے لوگ شادی کرنے سے ہچکچائیں گے اور غیر قانونی متبادل کی طرف بڑھیں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) نے پنجاب کے تحفظ خواتین ایکٹ اور خیبر پختونخوا کے گھریلو تشدد کے بل کے مسودے کو مغربی معاشرے کی اقدار کی حوصلہ افزائی قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’تحفظ خواتین ایکٹ‘ اسلامی نظریاتی کونسل میں مسترد

سی آئی آئی کے 2 روزہ اجلاس کے اختتام پر کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور دیگر کئی اراکین نے، ملک کے قوانین اسلام کے مطابق ہونے کی یقین دہانی کرانے میں ناکامی پر جمہوری حکومتوں کی مذمت کی۔

کونسل کا کہنا تھا کہ صرف آمروں نے ملک کے قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے کام کیا، جبکہ جمہوری حکومتوں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اسلامی اقدار کے خلاف کام کرتی رہی ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں