اسلام آباد: وزیراعظم کی جانب سے دہشت گردوں اور 'دھرنے والوں' کو ملکی ترقی کے خلاف ایک ہی اینجنڈا پر کام کرنے کے بیان کے ردعمل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان نے کہا ہے نواز شریف پاناما پیپرز پر جواب دینے کے بجائے ملکی دورے کررہے ہیں اور معاملے پر سے توجہ ہٹانے کی کوششیں کررہے ہیں۔

آج سکھر-ملتان موٹر وے کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب میں نواز شریف نے کہا تھا کہ دہشت گرد پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، جبکہ سڑکوں اور چوراہوں پر دھرنا دینے اور انتشار پھیلانے والوں کا بھی یہی ایجنڈا ہے، وہ بھی پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، دونوں ہی پاکستان مین افراتفری پھیلانا اور امن کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔



مجھے بتائیں کہ پنجاب کے اندر کون سے لوگ دہشت گردوں کی پشت پر تھے؟

عمران خان کا وزیراعظم کے بیان پر ردعمل

وزیراعظم کا بیان: 'دہشت گردوں اور دھرنے والوں کا ایجنڈا ایک ہے'

پی ٹی آئی کے اسلام آباد دھرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ اگر دھرنوں کی سیاست نہ ہوتی تو موٹر وے کا یہ منصوبہ بہت پہلے ہی شروع ہوچکا ہوتا۔

جمعے کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں عمران خان نے ایک صحافی کے وزیراعظم کے بیان سے متعلق سوال پر کہا 'پاناما پیپرز پر جواب دینے کے بجائے وزیراعظم معاملے سے توجہ ہٹانے کے حربے اپنائے ہوئے ہیں، مجھے بتائیں کہ پنجاب کے اندر کون سے لوگ دہشت گردوں کی پشت پر تھے؟ تحریک انصاف نہیں تھی'

یہ بھی پڑھیں : سکھر-ملتان موٹروے کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا

عمران خان کا کہنا تھا کہ احتجاج جمہوریت کا حسن ہے، تمام مغربی ممالک میں پرامن احتجاج ہوتا ہے، اسے کہیں دہشت گردی قرار نہیں دیا جاتا۔

عمران خان نے کہا کہ میاں صاحب کے بچوں کا پاناما پیپرز میں نام آیا ہے، انہیں جواب پیسہ بھجوانے کی تفصیلات سے آگاہ کرنا ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ ہم نے صرف چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، اگر آپ انہیں کھول دیتے تو ہم دھرنا نہ دیتے۔

وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ پاکستان 2 حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔

مزید جانیں: 'وزیراعظم سے استعفیٰ نہیں مانگا، موقع دیا ہے'

'ایک کرپشن پچاؤ تحریک ہے جو آپ لیڈ کررہے ہیں، اور دوسری طرف سارا پاکستان کرپشن ہٹاؤ تحریک کے ساتھ کھڑا ہے، یہ تحریک جلسے، جلوسوں اور بلیک میلنگ سے ختم نہیں ہوگی۔'

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیاں ہونے کے معاملے کا انکشاف ہوا تھا، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی بڑی جماعتوں نے وزیراعظم سے استعفے اور ان کمپنیوں میں منتقل ہونے والی رقم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

پاناما لیکس

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟


• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: الزام ثابت ہوا تو گھر چلاجاؤں گا: نوازشریف

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

اس سلسلے میں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ اس کمیشن کے ضابطہ کار پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں : پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف

دستاویزات کے مطابق، وزیر اعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔

خیال رہے کہ یو این کمیٹی نے 2005 میں انکشاف کیا تھا کہ یہ کمپنی عراق میں ’تیل کے بدلے خوراک‘ سکینڈل میں ملوث تھی۔

اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

میڈیا مینیجر پاشازی ٹی وی سمیت دوسرے انڈین چینلز سے کاروباری معاہدے کرتے رہے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ ان میں سے عثمان سیف اللہ پی پی پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

سابق جج ملک قیوم کا، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے پی ایم ایل-ن کے رکن قومی اسمبلی ہیں، نام دستاویزات میں شامل ہے۔

لیکس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔

لیکس میں بتایا گیا کہ ثمینہ درانی کم از کم تین آف شور کمپنیوں Rainbow Ltd, Armani River Ltd and Star Precision Ltd جبکہ میراج Haylandale Ltd میں بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔

تاہم ،میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں