صحافی کی ڈائری: اورماڑہ نیول بیس میں ایک دن

صحافی کی ڈائری: اورماڑہ نیول بیس میں ایک دن

توصیف رضی ملک

یہ تین حصوں پر مشتمل سیریز کا تیسرا اور آخری مضمون ہے۔ گذشتہ حصے یہاں پڑھیے۔


تیسرا دن

7 بجے: آج ہم اے ٹی آر مسافر طیارے پر سوار ہونے کے لیے وقت پر پہنچے جو ہمیں اورماڑہ لے جانے کے لیے تیار کھڑا تھا، جہاں پاک بحریہ نے اپنا ذیلی ہیڈکوارٹر قائم کیا ہوا ہے۔ اورماڑہ کراچی سے آدھے گھنٹے کی پرواز کے بعد آتا ہے، چنانچہ جہاز کے عملے نے چائے پیش نہیں کی۔ جہاز پر سوار ہونے سے لے کر ناگہانی صورتحال کے متعلق بریفنگ جیسی تمام کارروائیاں پہلے دن جیسی ہی تھیں۔

اورماڑہ کے قریب سمندر کراچی کے آلودہ سمندر کے برعکس صاف ہے۔
اورماڑہ کے قریب سمندر کراچی کے آلودہ سمندر کے برعکس صاف ہے۔

ہم نے اورماڑہ کے بیچ کسی جگہ پر لینڈ کیا۔ ہمیں وہاں صرف نیول ایئر اسٹیشن کی عمارت ہی دکھائی دے رہی تھی۔

عمارت کی مرکزی دیوار پر ''اورماڑہ نیول ایئر بیس'' لکھا ہوا تھا مگر اسی عمارت کی پچھلی دیوار پر ''اورماڑہ ایئر پورٹ'' لکھا تھا۔

یہ عدم مطابقت بلوچستان میں ہونے والی ترقی کی عکاسی محسوس ہوتی ہے — جہاں مسلح افواج اور سویلین انتظامیہ دونوں ہی صوبے کو ترقی دلوانے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر یوں لگتا ہے کہ ایک ہی چیز کا بناؤ سنگھار کر کے بار بار دہرایا جا رہا ہے۔

ایک ہی عمارت کے دو اطراف.
ایک ہی عمارت کے دو اطراف.

10 بجے: جناح نیول بیس اورماڑہ نیوی کا قیمتی سرمایہ ہے. کراچی سے 350 کلومیٹر اور گوادر سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جناح نیول بیس سمندری راستے کی قدرتی چوکی ہے جبکہ ساحلوں کی سکیورٹی پر عمل در آمد کروانے کا بنیادی مرکز بھی ہے۔

گوادر اور کراچی میں معاشی سرگرمیوں کے لیے موجود بندرگاہوں کے برعکس جناح بیس صرف دفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

نیول بیس چٹان کی اوٹ پر تعمیر ہے، اس وجہ سے قدرتی طور پر دشمنوں کی نظروں سے اوجھل ہے اور نیوی کو فوری حملہ کرنے کی صلاحیت بھی فراہم کرتا ہے۔

جہاز سے دیکھنے پر یہ 17 سو فٹ بلند چٹان، تین اطراف سے سمندر میں گھرے ہونے کی وجہ سے واضح طور پر ہتھوڑی نما دکھائی دیتی ہے۔ نیوی کے جوان اسے ''دی ہیمر ہیڈ'' کہتے ہیں اور جناح نیول بیس دشمنوں سے اوجھل رہنے کے لیے اس چٹان کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔

آر ڈی ایس میانوالی کے اوپر سے اورماڑہ کا ایک منظر.
آر ڈی ایس میانوالی کے اوپر سے اورماڑہ کا ایک منظر.

1 بجے: اورماڑہ میں ہمارا شیڈول افراتفری سے بھرپور تھا۔ ہمیں کہا گیا کہ ہمیں وقت سے مقابلہ کرتے ہوئے جلد سے جلد کراچی کے لیے روانہ ہونا پڑے گا کیونکہ اسی جہاز کو اسلام آباد کے صحافیوں کو دوبارہ دارالحکومت لے جانا تھا۔

لہٰذا ہم ایک سے دوسری عمارت کی طرف دوڑ بھاگ رہے تھے۔

کیڈٹ کالج اورماڑہ میں ہونے والی پریڈ۔ 2012 میں کالج کے قیام کے بعد تین بیچز کا داخلہ ہوچکا ہے۔
کیڈٹ کالج اورماڑہ میں ہونے والی پریڈ۔ 2012 میں کالج کے قیام کے بعد تین بیچز کا داخلہ ہوچکا ہے۔

ان عمارتوں میں اورماڑہ کیڈٹ کالج، اورماڑہ ماڈل اسکول اور پی این ایس درمانِ جاہ ہسپتال شامل تھیں۔

ایک افسر نے بتایا کہ روزانہ تقریباً 200 مقامی افراد چیک اپ کروانے یہاں آتے ہیں جن میں سے دس کو مناسب سہولیات کے ساتھ داخل کیا جاتا ہے۔

کیڈٹ کالج اورماڑہ کے بیشتر طالب علم مقامی ہیں.
کیڈٹ کالج اورماڑہ کے بیشتر طالب علم مقامی ہیں.

''درمانِ جاہ'' بلوچی کا لفظ ہے جس کی معنی ہے ''شفا کی جگہ''۔ اس ہسپتال میں میری ملاقات ایک مقامی چاچا خدا بخش سے ہوئی جو ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کروانے آئے ہوئے تھے۔ وہ ایک ریٹائرڈ پولیس حولدار ہیں اور سالوں سے اس علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔

نیوی مقامی لوگوں کو مفت طبی سہولیات فراہم کرتی ہے اور چاچا خدا بخش جیسے کئی دوسرے افراد بھی اس سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔

چاچا خدا بخش نے ایسی سہولیات فراہم کرنے پر نیوی کے اقدامات کو سراہا جن کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں تھا۔

پی این ایس درمان جاہ اورماڑہ کے مقامی لوگوں مفت طبی سہولیات فراہم کرتا ہے۔
پی این ایس درمان جاہ اورماڑہ کے مقامی لوگوں مفت طبی سہولیات فراہم کرتا ہے۔

دورانِ گفتگو میں نے نوٹ کیا کہ خدا بخش کے ہاتھوں میں ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیوں کا پرچہ تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ ان کا چیک اپ ہو چکا تھا اور وہ اب دوائیں لینے کا انتظار کر رہے تھے ۔ مگر وہاں پر دوائیں دینے کا عمل ہمارے ''اعلیٰ سطحی دورے'' کی وجہ سے رک چکا تھا۔

میں نے انہیں یقین دلایا کہ ہم ویسے ہی جلدی میں ہیں اور جلد ہی ہمارے جانے کے بعد آپ اسٹور سے دوائیں حاصل کر لیجیے گا۔

یہ سن کر وہ ہنس پڑے اور گلے لگا کر کہنے لگے کہ ''آپ یہاں ہمارے مہمان ہو، میں آپ کی خاطر سارا دن بیٹھ کر انتظار کر سکتا ہوں،''

یہ سن کر احساس ہوا کہ پاکستانی ہر جگہ ایک سے ہی ہوتے ہیں — مہمان نواز، دوسروں کا خیال رکھنے والے۔

اس بات کے بعد میں نے چاچا خدا بخش کو خدا حافظ کہا اور اس گاڑی کی طرف دوڑنے لگا جہاں باقی دوست میرے منتظر تھے۔

چاچا خدا بخش ایک ریٹائرڈ پولیس حولدار ہیں اور سالوں سے اورماڑہ میں رہائش پذیر ہیں.
چاچا خدا بخش ایک ریٹائرڈ پولیس حولدار ہیں اور سالوں سے اورماڑہ میں رہائش پذیر ہیں.

3 بجے: اورماڑہ میں صورتحال ''دوڑے چل'' جیسی تھی، یہاں تک کہ کھانا بھی۔

ہم نے پورا دن صرف دس منٹ چائے پانی اور پانچ منٹ سگریٹ کا وقفہ لیا تھا۔ صورتحال تب مزید دلچسپ ہوگئی جب کمانڈنگ افسر نے پانچ منٹ میں کھانا ''ختم کرنے'' کو کہا۔

یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ کوئی پانچ منٹ میں کیسے کھانا ختم کر سکتا ہے۔ یہ صرف فوجی جوانوں کے ہی بس کی بات ہے۔ مگر افسر کی بات کو توجہ دیتے ہوئے ہم نے جلد سے جلد کھانا حلق سے نگلنا شروع کردیا۔

نیوی کے زیر اہتمام اسکول میں مقامی بچوں کو برابر مواقع کے ساتھ معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔
نیوی کے زیر اہتمام اسکول میں مقامی بچوں کو برابر مواقع کے ساتھ معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔

جب ہم کراچی روانہ ہونے کے لیے کھڑے جہاز کی طرف جا رہے تھے تو ہم نے نوٹ کیا کہ جہاز میں دو بند پیٹیاں بھی رکھی جا رہی تھیں۔

ایک ساتھی صحافی نے وہاں موجود افسران سے مذاقاً بوچھا کہ،''کیا آپ لوگ جہاز میں آم لوڈ کر رہے ہیں؟''

ایک لمحے کے لیے وہ سوال سمجھ نہیں پائے، مگر جب سوال سمجھ میں آیا تب ان کی ہنسی چھوٹ گئی۔ آخر ماضی میں بھی آموں پر جہاز گرانے کا الزام لگ چکا ہے۔

آر ڈی ایس میانوالی کی طرف جانے والی پرخطر سڑک۔
آر ڈی ایس میانوالی کی طرف جانے والی پرخطر سڑک۔

5 بجے: کراچی روانہ ہونے کی پرواز کے ساتھ ہی ہمارا تین دنوں پر مشتمل دورہ، یا تربیت کہیے، پورا ہوا، جس کا مقصد نیوی کے ترقیاتی منصوبوں پر روشنی ڈالنا اور بیرونی خطرات سے ہر دم نمٹنے اور مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا تھا۔

اس دورے سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ سویلین حکومت کے لیے عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قدم سے قدم ملانا اتنا آسان نہیں ہے۔ دونوں فریقوں کو اس فرق کو سمجھنا اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔

تمام چھاؤنیوں کو بنیادی سہولیات سے آراستہ کرنا افواج کے لیے باقاعدہ طور پر ضروری ہے، مگر اس عمل میں سویلین انتظامیہ بہت پیچھے ہے۔

بلاشبہ افواج چھاؤنیوں کے گرد و نواح میں رہنے والے مقامی لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ اس طرح وہ سویلین انتظامیہ کے حصے کا کام بھی خود کر رہی ہیں، مگر اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ سویلین انتظامیہ اپنے حصے کے کام یا لوگوں کے مسائل حل کرنا چھوڑ دے۔

بہر حال یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ افواج کے ترقیاتی کام اس صورت میں ہی دیرینہ طور پر کارگر ثابت ہو سکتے ہیں جب سول انتظامیہ بھی ان میں اپنا کردار ادا کرے۔

جب مسلح افواج ایک جگہ کو ترقی دلوانے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو پھر اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔
جب مسلح افواج ایک جگہ کو ترقی دلوانے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو پھر اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔


بحریہ کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے 50 صحافیوں کے گروپ کو بلوچستان کی ساحلی پٹی پر گوادر اور پسنی میں واقع بحریہ کی تنصیبات کا دورہ کروایا گیا تھا۔


توصیف رضی ملک ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں.

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: trmaverick@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔