اس نئی ڈیجیٹل دنیا میں کوئی بھی تنقید سے محفوظ نہیں، کیونکہ ریموٹ کے ایک بٹن سے آپ کچھ ایسا دیکھ سکتے ہیں جو آپ کے لئے برا اور آپ کے پڑوسی کے لیے مکمل طور پر قابل قبول ہوسکتا ہے۔

اس کی مثال ہم ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے "اڈاری" کی گزشتہ قسط (8 مئی) کے بعد پیمرا کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹس سے سامنے آئی، جس میں کچھ مناظر پر وضاحت طلب کی گئی ہے۔

اس ڈرامے کی کہانی بچوں کے جنسی استحصال پر مبنی ہے جس میں ایک ایسے شخص امتیاز کو دکھایا گیا ہے جس کی اپنی یتیم بھانجی میرن (عروہ حسین) اور نوجوان سوتیلی بیٹی زیبو کو لے کر نیت خراب ہے۔

امتیاز کی جانب سے میرن کو بہلا پھسلا کر ناجائز تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ اس کی شیطانی حرکت سے بمشکل بچنے میں کامیاب ہوتی ہے جس کے بعد امتیاز کا اگلا ہدف زیبو کو دکھایا گیا ہے۔

پاکستان میں حالیہ عرصے کے دوران ایسے مناظر کافی دکھائے گئے ہیں جنھیں ہضم کرنا آسان نہیں ہوتا، خودکشیوں اور قتل کے ساتھ ساتھ خاندان کے اراکین کے ہاتھوں ریپ کی تصویر کشی عام ہوئی ہے۔

تو پیمرا اچانک ٹی وی پر قابل اعتراض مواد پر کیوں اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور کیوں اس نے ایک ایسے ڈرامے پر کریک ڈاﺅن کیا ہے جو بچوں کے جنسی استحصال جیسی سماجی برائی کو سامنے لانا چاہتا ہے؟

پیمرا کا جانبدارانہ رویہ

یا تو انتظامیہ اس بات سے مکمل طور پر لاعلم ہے کہ پاکستانی ٹی وی اسکرین پر آج کل تفریح کے نام پر کیا کچھ ہورہا ہے یا وہ بغیر سوچے سمجھے سیکیورٹی اسکریننگ کرتے ہوئے عوام کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ حکومت اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔

اڈاری کے بارے میں کیا جاننے کی ضرورت ہے

اڈاری، پاکستانی ڈراما سیریلز کی بہت زیادہ کمرشل اور مسابقتی دنیا میں ایک نایاب پرندے کی طرح ہے، ایک این جی او جسے کینیڈین حکومت کی جانب سے گرانٹ ملی ہے، کے فنڈز سے بننے والے اس ڈرامے کا مقصد پیسہ کمانا نہیں بلکہ جنسی استحصال کے سنجیدہ مسئلے کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔

ایک انتہائی سنجیدہ موضوع جو کسی کمرشل ڈرامے میں بمشکل ہی نظر آتا ہے، کو ایک ایسا مصنف ہی تحریر کرسکتا ہے جو حساس اور اخلاقی جرات رکھتا ہو جیسے فرحت اشتیاق۔ ان کے کریڈٹ میں ناصرف تاریخ ساز "ہمسفر" اور "دیار دل" شامل ہیں بلکہ وہ بچوں کی شادیوں جیسے مشکل موضوع پر ڈراما "رہائی" بھی تحریر کرچکی ہیں۔

تناظر سے ہٹ کر کوئی بھی سین یا کہانی میں لگتا ہے کہ وہ جذباتی یا سنسنی خیزی کے ذریعے ریٹنگ حاصل کرنا چاہتی ہے مگر یہ ڈراما کافی تحقیق کے بعد اور پاکستانی خواتین کو معاشرے میں اوپر لانے کے لیے سرگرم کشف فاﺅنڈیشن کے مشوروں کو مدنظر رکھ کر تحریر کیا گیا ہے۔

مشکل موضوع کو اچھی طرح سنبھالنا

اخلاقی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے مشکل موضوعات کو پیش کرنا آسان نہیں مگر اڈاری میں توازن برقرار رکھا گیا ہے۔ اداکار احسن خان نے وضاحت کی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ایک ولن کے کردار کو کرکے اپنی رومانوی ہیرو کی شناخت کو خطرے میں ڈالا ہے، تاہم انہیں لگتا ہے کہ بچوں کے تحفظ کے معاملے پر شعور اجاگر کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

ڈائریکٹر احتشام الدین ان مشکل مناظر کو سادگی اور کسی جنسی تسکین کے اشاروں کے بغیر پیش کیا ہے، ہاں یہ مناظر ہلا دینے والے ہیں اور انہیں ہونا بھی چاہئے۔ ایسی حرکات کبھی بھی رومانوی یا غیر متاثرکن نہیں ہوسکتیں کہ ان کا اثر ہی مرتب نہ ہو۔ تاہم پوری قسط کے تناظر سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی بھی معنی خیز یا فحش چیز نہیں۔

یہ بنیادی چیز تناظر ہے، اڈاری میں دکھائے جانے والے مناظر کا موازنہ حالیہ عرصے میں پرائم ٹائم میں دکھائے جانے والے ڈراموں سے کیا جائے تو یہ بدقسمت لگتا ہے۔ ایک حالیہ ڈرامے "سنگت" میں ایک ریپ سین کو کسی آرٹ پراجیکٹ کی طرح کوریو گراف کیا گیا جبکہ پورا ڈراما متاثرہ لڑکی کی تحقیر اور ملزم کو ایسے پیش کرنے میں کیا گیا کہ لگے کہ اسے 'برا' سمجھنا غلط فہمی ہے۔

ایک اور حالیہ ہٹ ڈرامے "گل رعنا" میں ہیرو اپنے گھر میں پناہ لی ہوئی لڑکی کا ریپ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ان دونوں واقعات میں حملہ آور کو عوام کے سامنے ولن کی بجائے رومانوی ہیروز کے روپ میں پیش کیا گیا۔

ایک اور ڈراما جو ریٹنگ کی جنگ جیتنے کی جدوجہد میں شامل رہا وہ "بے قصور" ہے، جس میں ایک لڑکی کو کھلے عام ایک پنکھے پر پھندے پر لٹکٹے ہوئے دکھایا گیا، ایک ماں اپنی بیٹی کی شادی روکنے کے لیے اسے زہر پلا دیتی ہے، ایک خاتون اور اس کی بیٹی ایک ہی شخص سے شادی کرلیتے ہیں۔ اس سے بھی تشفی نہیں ہوئی تو ایک حالیہ قسط میں قتل اور ریپ کی کوشش کا اضافہ بھی کردیا گیا۔

کوئی بھی ڈرامے سدا "سکھی رہو" کو دیکھ کر حیران ہوسکتا ہے کہ آخر پیمرا اس طرح کے ظالمانہ تشدد کی طرز پر کوئی اعتراض کیوں نہیں کرتا یا کسی کو بھی ڈرامے "اب کر میری رفوگری" کی پرتشدد تھیم پر اعتراض کیوں نہیں۔

بس یہ کہنا کافی ہے کہ غیر ضروری تشدد اور معنی خیز ریپ سینز آج کے ڈراموں کا حصہ ہیں مگر پیمرا نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا، آخر کیوں؟

اختتام

نوجوان نسل کی بڑی تعداد جنسی طور پر قابل اعتراض ڈراموں جیسے "گیم آف تھیرون" کو متعدد برسوں سے ڈاﺅن لوڈ کررہی ہے۔

پاکستانیوں کے لیے یہ عام ہے کہ پابندیوں میں رہا جائے اور اپنے فن و ثقافت کے بخیے ادھیڑ کر سخت گیر ردعمل سے بچا جاسکے جس سے سرحد کے دونوں جانب ایک خلاءپیدا ہوا۔ اب انٹرنیٹ کے ذریعے کافی تعداد میں کارآمد معلومات دستیاب ہے تاہم اگر تخلیقی ادارے کو تسلسل سے خاموش اور غیرقانونی پیش کیا جائے گا تو ہم اپنی ثقافت کو ایلین کی طرح ہی دیکھتے رہیں گے اور معاشرتی مسائل کے لیے بیرونی حل تلاش کریں گے جو ہمیشہ ہماری روایات میں فٹ نہیں ہوتے۔

بچوں کا استحصال ایک اہم موضوع ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ کئی بار تلخ حقائق کا سامنا ان سے تحفظ اور آگاہی کے لیے ضروری ہوتا ہے، ہم کسی مسئلے کو اس لیے نظرانداز نہیں کرسکتے کہ وہ بدصورت یا مکروہ ہے۔

ایسا نہیں کہ ہم ٹی وی یا کسی بھی ٹی وی چینیل کی اسکروٹنی نہیں ہونی چاہئے، ایسا ہونا چاہئے اور زیادہ ہونا چاہئے۔

تاہم اگر پیمرا اپنے طے کردہ اصولوں پر قائم نہیں رہتا یا اس ماحول کو نہیں سمجھتا جسے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، تو یہ ادارہ اپنی ساکھ کھو دے گا جبکہ صحت مند بحث اور شعور اجاگر کرنے کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں