اسلام آباد/ہیتھرو: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیرمین عمران خان نے اپنے کرکٹ کھیلنے والے دنوں میں ٹیکس بچانے کےلیے 1983 میں ایک آف شور کمپنی بنانے کا اعتراف کرلیا۔

لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ آف شور کمپنی اپنے اکاؤنٹنٹ کے مشورے پر لندن میں فلیٹ خریدنے کے سلسلے میں بنائی تھی۔

مزید پڑھیں: پانامالیکس:چیف جسٹس کاکمیشن بنانے سے'انکار'

انہوں نے کہا کہ 'میں پہلے ہی اپنی کمائی پر 35 فیصد ٹیکس ادا کررہا تھا تو مزید ٹیکسوں سے بچنے کے لیے میں نے یہ آف شور فرم بنائی جو کہ میرا حق تھا کیوں کہ میں برطانوی شہری نہیں تھا۔'



آف شور کمپنی اکاؤنٹنٹ کے کہنے پر بنائی تاکہ ٹیکس بچایا جاسکے۔

عمران خان

اس سے قبل جیو نیوز کے پروگرام 'نیا پاکستان' میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی ترجمان نعیم الحق نے کہا کہ عمران خان نے کرکٹ کھیل کر کمائے ہوئے پیسوں سے 'لیگل' آف شور کمپنی بنائی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اس زمانے میں آسٹریلیا اور انگلینڈ میں کرکٹ کھیل رہے تھے جبکہ لندن میں فلیٹ خریدنے کے سلسلے میں تمام قانونی پہلوؤں پر عمل کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ

انہوں نے بتایا کہ جب عمران خان نے فلیٹ فروخت کیا تو بینک کے ذریعے رقم پاکستان بھجوائی اور یہاں جائیداد خریدی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان یہ کمپنی پہلے ہی ڈیکلیئر کرچکے ہیں۔

ادھر نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے ٹوئٹر پر اپنے ردعمل کا اظہار کچھ اس طرح کیا۔

خیال رہے کہ عمران خان نے پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ وہ آف شور کمپنی کے حوالے سے وزیراعظم اور ان کے خاندان کو متعدد بار تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'میاں صاحب کرپشن ثابت ہوئی تو آپ گھر نہیں جیل جائیں گے'

پاناما لیکس کے معاملے پر آج اس وقت اہم پیشرفت ہوئی جب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنانے سے متعلق حکومتی درخواست کو مسترد کردیا ۔

اس سے قبل حکومت اور اپوزیشن اپنے الگ الگ ٹی او آرز پیش کرچکی ہے۔

پاناما لیکس

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیاں ہونے کے معاملے کا انکشاف ہوا تھا، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی بڑی جماعتوں نے وزیراعظم سے استعفے اور ان کمپنیوں میں منتقل ہونے والی رقم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟


• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

اس سلسلے میں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ اس کمیشن کے ضابطہ کار پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔

دستاویزات کے مطابق، وزیر اعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

خیال رہے کہ یو این کمیٹی نے 2005 میں انکشاف کیا تھا کہ یہ کمپنی عراق میں ’تیل کے بدلے خوراک‘ سکینڈل میں ملوث تھی۔

اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

میڈیا مینیجر پاشازی ٹی وی سمیت دوسرے انڈین چینلز سے کاروباری معاہدے کرتے رہے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ ان میں سے عثمان سیف اللہ پی پی پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔

سابق جج ملک قیوم، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے پی ایم ایل-ن کے رکن قومی اسمبلی ہیں، کا نام بھی دستاویزات میں شامل ہے۔

لیکس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔

مزید جانیں: پاناما لیکس:وزیراعظم کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان

لیکس میں بتایا گیا کہ ثمینہ درانی کم از کم تین آف شور کمپنیوں Rainbow Ltd, Armani River Ltd and Star Precision Ltd جبکہ میراج Haylandale Ltd میں بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔

تاہم ،میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr May 14, 2016 01:29am
پاناما لیکس اور اف شور کمپنیوں پر شور مچانے والے بھی اف شور کمپنی کے مالک نکلے افسوس کی بات یہ ھے کہ عمران حان کی کمپنی ٹیکس بچانے کیلئے ھے اور یہ انکا حق تھا لیکن دوسری طرف کی اف شور کمپنی ٹیکس چوری اور ناجائز ھے IK is pioneer in offshore company formation, among Pakistanis.Not only the oldest, his company remained operational for the longest period.