اسلام آباد : عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کی 6 رکنی ٹیم ایک بار پھر پاکستان آئی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی اسٹیورٹ مائیکل کر رہے ہیں، جو اس قتل کیس کی تحقیقات پر تبادلہ خیال کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی منی لانڈرنگ سے متعلق شواہد کا جائزہ بھی لیں گے۔

اسکاٹ لینڈ یارڈ ٹیم دبئی سے اسلام آباد پہنچی۔

یہ بھی پڑھیں : عمران فاروق قتل کیس میں چالان منظور، جیل ٹرائل کا حکم

وفاقی تحقیقاتی ذرائع (ایف آئی اے) کے ذرائع کے مطابق اسٹیورٹ مائیکل کی سربراہی میں آنے والی ٹیم عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات پاکستانی حکام سے تبادلہ خیال کرے گی۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ایم کیو ایم کی منی لانڈرنگ سے متعلق شواہد کا بھی زیر بحث آنے کا امکان ہے۔

ایف آئی اے ذرائع نے مزید بتایا کہ ٹیم کے ارکان عمران فاروق قتل کیس کے ملزمان سے بھی ممکنہ طور پر ملاقات کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں : عمران فاروق قتل کیس: ملزمان تک برطانوی رسائی کا فیصلہ

ذرائع نے بتایا کہ ٹیم کے ارکان چند روز تک اسلام آباد میں ہی قیام کریں گے بعد ازاں اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کراچی کا دورہ بھی کرے گی۔

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کے ساتھ شواہد اور تحقیقات میں تبادلہ قواعد و ضوابط کے مطابق کیا جا رہا ہے۔

اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کو جو شواہد درکار ہیں اُن میں ایف آئی اے مکمل معاونت کر رہی ہے۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں : عمران فاروق قتل کا کوڈ 'ماموں کی صبح ہوگئی' تھا

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیر کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں : عمران فاروق قتل کیس: دو ملزمان کا اعتراف جرم

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کا الطاف حسین کے خلاف مقدمہ

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں