امریکی ڈرون حملے میں مارے جانےوالے ملااختر منصور نے جولائی 2015 میں ملا عمر کی موت کے بعد افغان طالبان کی کمان سنبھالی۔

ملا اختر منصور کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے تھا، اُن کی عمر 50 سال اور تعلق افغان قبیلے اسحاق زئی سے بتایا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘

افغان طالبان کے امیر نے خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے تعلیم بھی حاصل کی تھی۔

سابق سویت یونین کے خلاف جنگ میں ملا اختر منصور نے بھی حصہ لیا تھا اور 90 کی دہائی کے آخر میں جب افغانستان میں ملا عمر کی سربراہی میں تحریک طالبان بنائی گئی تو ملا اختر محمد منصوراُس میں شامل ہوئے۔

اختر منصور کو ملا عمر کے انتہائی قریب مانا جاتا تھا۔

طالبان دور حکومت کے دوران ملا اختر منصور 2001-1996 تک افغانستان کے سول ایوی ایشن کے وزیر بھی رہے۔

وہ طالبان کی حکومت میں ایوی ایشن کی وزارت کے ساتھ ساتھ قندھار میں کیا جہادی کمانڈر بھی تھے، جو داخلی انتشار پر قابو پانے کی جدوجہد کر رہے تھے، جبکہ ان کے ماتحت ایک ایسی وزارت تھی جس کے جہازوں کے لیے پرزے تک دستیاب نہیں تھے۔

مزید پڑھیں : ملا اختر منصور افغان طالبان کے نئے امیر مقرر

طالبان نے عمومی طور پر کابل سے افغانستان پر حکومت کی لیکن ملا منصور اس دور کے ایسے وزیر تھے جو قندھار سے ایوی ایشن کی وزارت کا کنٹرول سنبھالے ہوئے تھے۔

افغانستان پر اکتوبر 2001 میں امریکی حملے کے دوران دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی نامعلوم مقام پر روپوش ہوئے۔

کئی برسوں بعد طالبان قیادت دوبارہ منظم ہوئی تو وہ بھی منظر عام پر آئے اور قندھار میں طالبان کی قیادت کرتے رہے۔

ملا اختر منصور جولائی 2015ء میں ملا عمر کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد افغان طالبان کے سربراہ بنے۔

امارات اختر منصور کے پاس آنے کے بعد طالبان کی تحریک میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی، طالبان کے بڑے رہنماء اپنے اپنے گروہ کے ساتھ بڑے عہدوں کے حصول کے خواہاں ہوئے، ایسے میں کئی بار طالبان کی شوریٰ میں اختلاف کی بازگشت سنائی دی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں