پشاور: افغان امور کے ماہرین اور طالبان ذرائع نے امریکی ڈرون حملے میں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے افغان طالبان کے امیر ملا منصور کی ہلاکت کے بعد سابق طالبان رہنما ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیے جانے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

خیال رہے کہ دو روز قبل بلوچستان کے علاقے نوشکئی میں امریکی ڈرون نے ایک کار کو نشانہ بنایا تھا جس میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے، اس واقعے کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں افغان طالبان رہنما ملا منصور بھی شامل ہیں جو ایرانی سرحد سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: 'ولی محمد' نے 10 مرتبہ بیرون ملک کا سفر کیا

انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق عہدیدار برگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 'تنظیم میں مختلف دھڑوں کے باعث طالبان کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو بلا مقابلہ سربراہ منتخب کریں'۔

'یہ ملا منصور کی منصوبہ بندی اور تجربے کا نتیجہ تھا کہ امریکا بھی ملا عمر کی موت کے حوالے سے بے خبر رہا تھا'۔

محمود شاہ نے دعویٰ کیا کہ نئے سربراہ کو نامزد کرنا اس مرتبہ اتنا آسان نہیں ہوگا جیسا کہ ملا منصور کے معاملے میں ہوا تھا، کیونکہ ملا منصور، سابق طالبان رہنما ملا عمر کے بہت قریبی تھے اور ملا عمر کی موت کے بعد دو سال سے خاموشی سے تنظیم کو چلا رہے تھے۔

واضح رہے کہ ملا منصور کی ہلاکت کے بعد ان کے نائب سراج الدین حقانی، ملا منصور کے سیاسی امور کے مشیر ملا ہیبت اللہ، ملا عمر کے بھائی ملا منان اور ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب سربراہی کے اہم اُمیدوار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘

ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے افغانستان کے سابق سفیر رستم شاہ محمود کا کہنا تھا کہ 'سراج الدین حقانی کو ان کے علیحدہ گروپ (حقانی نیٹ ورک) کی وجہ سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، جیسا کہ کچھ عناصر انھیں طالبان کا حصہ تصور نہیں کرتے ہیں'۔

افغان طالبان کے نئے ممکنہ سربراہ


• سراج الدین حقانی

• ملا ہیبت اللہ

• ملا منان

• ملا یعقوب

سابق سفیر نے ان خبروں کی تردید کی ہے، جن میں کہا جارہا تھا کہ ملا منصور چار فریقی گروپ کی جانب سے کی جانے والی امن کوششوں کے خلاف تھے۔

محمود شاہ کا کہنا تھاکہ 'انھوں نے امن عمل کے حوالے سے یورپ، روس، چین اور مری میں ہونے والی کوششوں میں شرکت سے انکار نہیں کیا تھا۔

افغان امور کے ماہر اور تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ 'ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب تمام گروپوں کیلئے قابل قبول ہیں، اور جیسا کہ ملا رسول یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر ملا یعقوب کو گروپ کا سربراہ مقرر کردیا جائے تو طالبان کے تمام گروپ اس میں دوبارہ شمولیت اختیار کرلیں گے'۔

طالبان میں موجود ذرائع نے بھی تجویز دی ہے کہ ملا یعقوب ہی گروپ کے نئے سربراہ ہوں گے کیونکہ بیشتر طالبان رہنماؤں نے ان کی حمایت کی ہے۔

مزید پڑھیں: ملا اختر منصور افغان طالبان کے نئے امیر مقرر

یاد رہے کہ ملا منصور کی غیر موجودگی میں گروپ کے معاملات سراج الدین حقانی اور ملا ہیبت اللہ دیکھ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ سال جون میں طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کی موت کے حوالے سے افواہوں نے گردش کررہی تھی تاہم افغان طالبان ان خبروں کی تصدیق سے گریز کررہے تھے۔

مذکورہ انکشاف کے کچھ روز بعد طالبان نے ایک جاری بیان میں ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ دو سال قبل ہلاک ہوئے تھے اور ان کے بعد طالبان شوریٰ نے گروپ کی سربراہی ملا اختر منصور کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔



'طالبان کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو بلا مقابلہ سربراہ منتخب کریں جیسا کہ تنظیم میں مختلف دھڑے موجود ہیں'

سابق آئی ایس آئی عہدیدار

اس اعلان کے بعد طالبان کے بیشتر گروپس اور نئی قیادت کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور گروپ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

تاہم ملا اختر منصور اور دیگر طالبان رہنماؤں کی کوششوں سے گروپ کے اختلافات اختتام پذیر ہوئے اور اسی دوران افغانستان میں پیدا ہونے والے ایک اور عسکری گروپ داعش کے خلاف طالبان نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: اخترمنصور:قندھارسےطالبان کے امیر تک

طالبان نے 1996 سے 2011 تک افغانستان میں حکومت کی اور امریکا کی افغانستان میں مداخلت کے بعد وہ اس کے خلاف ایک اہم مزاہمت کار گروپ کے طور پر کارروائیاں کرنے لگے۔

2011 سے افغناستان میں جاری مسلح کشیدگی میں آئے روز اضافہ ہوتا گیا جو تاحال جاری ہے، جس میں اب تک ہزاروں غیر ملکی اور افغان فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں