ایبٹ آباد: عنبرین قتل کیس کی مرکزی کردار صائمہ نے کہا ہے کہ زندہ جلائی گئی لڑکی اس کی دوست نہیں تھی اور نہ انہیں شادی کے بارے میں معلوم تھا۔

ڈان نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صائمہ کا کہنا تھا کہ انہیں بھی عنبرین کی طرح جلانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔

انہوں نے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سمیت اعلیٰ حکام سے تحفظ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

مزید پڑھیں: لڑکی کو جلائے جانے پر وزیراعظم کا نوٹس

دوسری جانب قتل کیس کے 14 ملزمان کو جیل منتقل کردیاگیا تاہم کسی اب تک اعتراف جرم نہیں کیا ہے۔

خیال رہے کہ رواں سال اپریل میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ہزارہ کے شہر ایبٹ آباد میں نویں جماعت کی طالبہ 16 سالہ لڑکی کو جرگے کے فیصلے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جرگےکافیصلہ:16سالہ لڑکی قتل کےبعدجلادی گئی

ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) خرم رشید 23 اپریل کو ایبٹ آباد کے قریب واقع گاؤں مکول میں ایک نوجوان لڑکی صائمہ نے گھر سے فرار ہوکر پسند کی شادی کی تھی جبکہ اس سے قبل اطلاعات کے مطابق عنبرین صائمہ کی کلاس فیلو اور رازدار تھیں۔

ڈی پی او کے مطابق فرار ہونے والے جوڑے کے اہلخانہ نے نصیر سے پوچھ گچھ کی اور 3 دن تک انھیں تلاش کرتے رہے، بعدازاں مکول کے کونسلر پرویز نے نصیر کے گھر پر ایک جرگہ بلوایا جس میں 15 اراکین شریک ہوئے۔

انھوں نے بتایا کہ جرگے نے دونوں کو 'عبرت ناک سزا' دینے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ عنبرین کو بھی 'سزا' دینے کا فیصلہ کیا، جو اس سارے واقعے سے باخبر تھی۔

28 اپریل کی رات کو جرگے کے 5 سے 6 اراکین عنبرین کے گھر آئے اور اس کی والدہ کو ڈرا دھمکا کر عنبرین کو اپنے ساتھ لے گئے، اسے ایک خالی مکان میں لے جاکر نشہ آور ادویات دے کر بے ہوش کیا گیا اور پھر گلا گھونٹ کر قتل کردیا گیا اور بعدازاں سڑک کنارے کھڑی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈال کر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔

عنبرین کی لاش 29 اپریل کو ڈونگا گلی کے علاقے میں ایک جلی ہوئی گاڑی سے ملی، جس کے قریب کھڑی دوسری گاڑی بھی جلی ہوئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

zulfiqar Jun 06, 2016 01:50am
most of old culture are in human and need to wipe out from our planet with all the supporter of so called qbili riwayaat