راولپنڈی: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب ابھی ختم نہیں ہوا اور 'کام جاری ہے'، جس میں اب تک 3500 دہشت گرد اور 490 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کو 2 سال مکمل ہونے پرمیڈیا بریفنگ کے دوران لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ آج سے 2 سال پہلے ملک میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات ہورہے تھے، جس کے بعد 15 جون 2014 کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی ایجنسی شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ آپریشن کے آغاز سے قبل ہم نے افغانستان کو ہر طریقے سے آگاہ کیا تھا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کے افغانستان جانے کے امکانات ہیں، لہذا وہ ان کے خلاف کارروائی کریں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور خیبر ایجنسی سے دہشت گرد افغانستان چلے گئے، جس کے بعدآپریشن خیبر ون اورخیبر ٹو کا آغاز کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران پہلے 3600 اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ کلیئر کرایا گیا اور بعدازاں 4304 اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ کلیئر کرایا گیا، دہشت گردوں کے 992 ٹھکانے تباہ کیے گئے جبکہ دہشت گردوں سے 200 ٹن سے زائد بارود برآمد کیا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ فاٹا اور سوات میں آپریشن ہوچکا ہے اور ریاست کی رِٹ قائم ہوچکی ہے، حالات بہت بہتر ہیں، جو آنے والے دنوں میں مزید بہتری کی جانب جائیں گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب ابھی ختم نہیں ہوا، 'کام ابھی جاری ہے'، لیکن دہشت گردی کے چند ایک واقعات کو آپریشن کی ناکامی نہیں کہا جاسکتا۔

کومبنگ آپریشنز

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ فاٹا میں کومبنگ آپریشنز جاری ہیں اور ان کے تحت اُن علاقوں تک بھی رسائی حاصل کی جارہی ہے جو نو گو ایریاز تصور ہوتے تھے، تاکہ ہماری زمین کسی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہوسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آپریشن شروع کیا تھا تو اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ یہ آپریشن بغیر کسی تفریق ہوں گے، جو اب بھی جاری ہیں اور بلا تفریق جاری رہیں گے۔

کراچی آپریشن

میڈیا بریفنگ کے دوران عاصم باجوہ نے بتایاکہ کراچی میں 1200 سے زائد دہشت گرد پکڑے یا مارے گئے، جس سے ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں کمی آئی ہے اورکراچی کے معاشی حالات میں بہتری آئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس آپریشن کی وجہ سے کراچی میں زندگی آئی اور یہ کام اب بھی جاری ہے۔

طورخم بارڈر پر کشیدگی اور گیٹ کی تعمیر

ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ نے بتایا کہ افغانستان سے منسلک ساڑھے 13 سو کلومیٹر کا سرحدی علاقہ خیبر پختونخوا میں ہے، جہاں 8 باقاعدہ کراسنگ پوائنٹس ہیں اور اس کے علاوہ بھی بے شمار پوائنٹس ہیں، جن کا انتظام ایک مشکل کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان بارڈر کو مکمل طور پر سیل کرنا ممکن نہیں، لیکن سرحد پر تعیناتی کے لیے فرنٹیئر کور (ایف سی) کے نئے ونگز بنائے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ طورخم بارڈر پرگیٹ لگانے کا فیصلہ حکومت اورفوج نے مل کرکیا، یہ کوئی نیا گیٹ نہیں ہے بلکہ 2004 میں بھی یہاں گیٹ تھا۔

عاصم باجوہ نے بتایا کہ افغان چیک پوائنٹ پرسخت نگرانی کی جائے گی، یہی وجہ ہے کہ چیکنگ کا نظام بہتربنانے کے لیے باڑلگائی گئی۔

پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے میڈیا بریفنگ کے دوران عاصم باجوہ نے بتایا کہ افغانستان سے منسلک توخم بارڈر سے 14 دہشت گردپاکستان میں داخل ہوئے، جبکہ چارسدہ یونیورسٹی کے حملہ آور بھی طورخم بارڈر سے ہی آئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ حملوں میں ملوث سہولت کار بھی گرفتار کرلیے گئے ہیں۔

طورخم بارڈر پر حالیہ کشیدگی کے حوالے سے عاصم باجوہ نے بتایا کہ افغان فورسز نے فائرنگ کی اور ہماری فوج نے موثر طریقے سے جواب دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بارڈر پر تعینات جوان احکامات کا انتظار نہیں کرتے، اگر فائر ہوگا تو وہ بھی جوابی فائر کریں گے۔

تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ طورخم بارڈر کشیدگی کا اختتام سیز فائر کے ذریعے ہی ہوگا۔

یاد رہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام پاک افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اوراورکزئی ایجنسی سمیت سات ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔

حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی اور کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد پاک فوج نے گزشتہ برس جون میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا۔

شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کو دہشت گردوں سے خالی کروانے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کا دائرہ کار شمالی وزیرستان کے دوردراز علاقوں تک بڑھا، بعد ازاں خیبر ایجنسی اور ملحقہ علاقوں میں آپریشن ’خیبر ون‘ اور 'خیبر ٹو' کے تحت سیکیورٹی فورسز نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا،جن کا اب اختتام ہوچکا ہے۔

جبکہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے کے بعد بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں مزید تیزی آگئی ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں