پشاور: دو سینئر سیکیورٹی عہدیداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ پشاورکے آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے والا ماسٹر مائنڈ عمر منصور عرف عمر نارے افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگیا۔

مذکورہ عہدیداروں نے ڈان کو بتایا کہ ہفتے کو افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے علاقے بندار میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں آرمی پبلک اسکول حملے کے ماسٹر مائنڈ عمر منصور عرف خلیفہ منصور عرف عمر نارے کے ساتھ ایک اور عسکریت پسند رہنما قاری سیف اللہ بھی مارا گیا۔

ایک سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ڈرون حملے میں عمر نارے کے ساتھ قاری سیف اللہ کی ہلاکت کی مصدقہ رپورٹس ہیں، عمر منصور اور اس کا ساتھی سانحہ آرمی پبلک اسکول کا ماسٹر مائنڈ ہے۔

واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرکے 140 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، جن میں سے زیادہ تر معصوم بچے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور اسکول حملے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد ہلاک

دوسری جانب ایک اور سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ قاری سیف اللہ کی ہلاکت پر کچھ شکوک و شبہات ہیں، تاہم امریکی ڈرون حملے میں سیف اللہ کی ہلاکت کے 90 فیصد امکانات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکام یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ قاری سیف اللہ کو کس علاقے میں ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک

خیال رہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے رواں برس 25 مئی کو عمر نارے کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا جبکہ اس سے قبل 21 مئی کو بلوچستان کے ایک دور دراز علاقے میں امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور ہلاک ہو گئے تھے۔

واضح رہے کہ نہ تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور نہ ہی کسی دوسرے گروپ نے باضابطہ طور پر آرمی پبلک اسکول حملے کے ماسٹر مائنڈ عمر منصور عرف عمر نارے کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی ہے، تاہم اگر ان کی ہلاکت کی خبر درست ہوئی تو یہ تحریک طالبان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔

طالبان کمانڈر عمر نارے اہم دہشت گرد حملوں میں ملوث اور پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا۔

ایک سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ان اکا اگلا ہدف عبد الولی عرف عمر خالد خراسانی اور مولوی فضل اللہ ہیں اور یہ دونوں افغانستان میں چھپے پوئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ مل کر خفیہ اداروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرچکا ہے اور کابل نے اپنی سرزمین پر ان دہشت گردوں کی موجودگی کے بارے میں کوئی تردید نہیں کی اور نہ ہی انہیں ان آپریشنز کے حوالے سے کسی قسم کے تحفظات ہیں۔

عمر خالد خراسانی پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند میں جبکہ فضل اللہ سوات کے مقامی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور شدت پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

عمر نارے اور قاری سیف اللہ کا تعلق ٹی ٹی پی طارق گیڈر گروپ (گیدار گروپ) سے ہے اور دونوں دہشت گرد کمانڈرز پشاور اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں سے شدت پسند کارروائیاں کرتے تھے۔

عمر نارے فوجی آپریشن کے بعد افغانستان فرار گیا تھا، وہ ستمبر 2015 میں پشاور میں ایئر فورس بیس پر حملے میں ملوث تھا، جس میں 29 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

2015 میں چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے میں بھی عمر نارے کا ہی ہاتھ تھا،جس کے دوران اسٹاف ممبرز سمیت 18 طالب علم ہلاک ہوئے تھے۔

یہ خبر 12 جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں