اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ، رکن قومی اسمبلی اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن نے کمیٹی کو بے اختیار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف مسئلے کو اجاگر کرکے اس پر سفارشات پیش کرسکتے ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پالیسی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس پالیسی کا محور پارلیمنٹ کو ہونا چاہیے، جہاں وزارتِ خارجہ اور تمام ایجنسیاں اپنی رائے جمع کرواسکیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہماری کمیٹی میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی بھی فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر نہ ہوا ہو، ہم نے جو بھی فیصلے کیے وہ اتفاقِ رائے سے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر وہ حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انھوں نے کشمیر کمیٹی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے سفارشات بھی دی ہیں۔

انھوں نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی تبدیلی یا اسے ختم کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ گزشتہ تین سالوں میں اس کمیٹی کے صرف تین اجلاس ہوئے اور اب جبکہ کشمیر میں ہلاکتیں ہورہی ہیں تو 6 روز کے بعد اجلاس طلب کرنا تاخیر نہیں؟ تو مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی، لیکن انھوں نے اسلام آباد پہنچتے ہی حریت کانفرنس اور کشمیر جہاد کونسل کے وفود سے ملاقاتیں کیں۔

کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ یہ ایک خصوصی کمیٹی ہے، لہذا اس کے اجلاس ہر دن نہیں ہوتے اور جب ضرورت ہوتی ہے تو اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔

انھوں نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا کہ اس کمیٹی کے لیے مختص سالانہ 6 کروڑ روپے فنڈ کو کسی اور کام کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اخراجات کم سے کم ہوں۔

واضح رہے کہ پارلیمنٹ کی کمشیر سے متعلق اس خصوصی کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر 19 جولائی کو کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے۔

ایک ہفتے قبل حزب المجاہدین کے کمانڈر برہانی وانی کی ہندوستانی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے جموں و کشمیر میں مظاہروں اور ہڑتال کا سلسلہ تاحال جاری ہے، جبکہ فورسز کی فائرنگ سے اب تک کم سے کم 34 بے گناہ کشمیری ہلاک اور 1500 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: کشمیر میں کرفیو برقرار، ہلاکتیں 34 ہوگئیں

پاکستان نے ان واقعات پر ہندوستانی ہائی کمشنر کو دفترخارجہ طلب کرکے کشمیر میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں پر احتجاج اور سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔

دوسری جانب ہندوستان نے پاکستان کی جانب سے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بیانات کو اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان، ہندوستان کے معاملات میں دخل اندازی سے باز رہے۔

تاہم جموں و کشمیر میں حریت رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ پاکستان ان مظالم پر سخت احتجاج کرتے ہوئے ہندوستان سے اپنے سفارتی تعلقات کو مطل کردے۔

گزشتہ روز ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے حریت رہنما آسیہ اندرابی کا کہنا تھا کہ صرف مذمت نہیں، بلکہ اب پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس سے آگئے بڑھ کر کچھ عملی اقدامات کرے۔

کشمیر ہلاکتیں: 'پاکستان، ہندوستان سے سفارتی تعلقات معطل کردے'

یاد رہے کہ برہان مظفر وانی کے بھائی محمد خالد وانی کو بھی گزشتہ سال 14 اپریل 2015 کو ہندوستانی فوج نے ترال کے علاقے میں ایک 'جعلی مقابلے' میں ہلاک کر دیا تھا. خالد حسین ایم ایس کے طالب علم تھے، ان کے ہمراہ ان کے ایک دوست بھی ہلاک ہوئے تھے۔

برہان مظفر وانی کے والد مظفر احمد وانی کا کہنا تھا کہ خالد کو جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔

ہندوستانی فوج کی جانب سے حزب المجاہدین کے 21 سالہ کمانڈر کی کسی بھی قسم کی اطلاع دینے والے لیے 10 لاکھ روپے انعام دینے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں