حال ہی میں کراچی میں دریافت ہونے والے اے ٹی ایم فراڈ کے حوالے سے کچھ خبریں سامنے آئی تھیں۔ ملزمان نے اسکیمر کو ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز کے بینکنگ ڈیٹا کے حصول کے لیے استعمال کیا۔

یہ اس طرح کے فراڈ کو دریافت کرنے کا پہلا موقع تھا، جس میں گرفتاریاں بھی عمل میں آئی تھیں۔

اسکیمرز کیا ہوتے ہیں؟

اسکیمرز ایسی ڈیوائس ہے جسے اے ٹی ایم کارڈ سلاٹ پر نصب کیا جاتا ہے جو میگنیٹک پٹی کے ڈیٹا کو پڑھتی ہے۔

اس دھوکے میں نہ رہیں کہ آپ کا کارڈ، جس میں ایک چپ ہوتی ہے، اس طرح کی ڈیوائس سے بچ سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خاص طور پر پاکستان میں بیشتر ٹرمینلز ایسے ہیں جہاں میگنیٹک پٹی کے ڈیٹا کو پڑھنے کے لیے پرانی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈیٹا اب تک اس پٹی میں اسٹور ہوتا ہے۔

اس معلومات کے ساتھ ایک جرائم پیشہ شخص آپ کے بینک اکاﺅنٹ تک رسائی حاصل کرسکتا ہے، جرائم پیشہ افراد اے ٹی ایم بوتھ کے اندر یا مشین میں ہی ایسی ٹیکنالوجی کو نصب کرسکتے ہیں جو آپ کے پن کوڈ کو جان سکے۔

اس پن کوڈ اور میگنیٹک پٹی کے ڈیٹا کو کلون کارڈز بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس معلومات کو آسانی سے کسی بھی اے ٹی ایم پر آپ کے اکاﺅنٹ کو خالی کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پن کوڈ کے حصول کے لیے ایک فرضی کی پیڈ کو اصل کی جگہ نصب کیا جاسکتا ہے یا اے ٹی ایم بوتھ یا مشین کے پاس موجود کیمرے کو نمبر جاننے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ کیمرہ کارڈ ریڈر کے قریب یا کیمرہ سلاٹ کے اوپر نصب کیا جاسکتا ہے۔

تو اسکیمرز کو کیسے پکڑیں؟

سب سے پہلے تو خود کو ایک مشکل ہدف بنائیں یا اس کے امکانات کو کم کریں۔

ایسے اے ٹی ایمز استعمال کریں جو دن بھر میں بہت زیادہ استعمال ہوتے ہوں۔

ایسے اے ٹی ایم کا انتخاب کریں جو جانے پہچانے ہوں یعنی آپ اکثر استعمال کرتے ہوں۔

فراڈ کرنے والوں کو کسی اے ٹی ایم میں ڈیوائسز نصب کرنے اور نکالنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ یہ کام زیادہ استعمال ہونے والے اے ٹی ایمز میں کرنے سے گریز کرتے ہیں، جہاں ان کی سرگرمیاں شکوک و شبہات کا باعث بن سکتی ہیں۔

شاپنگ مراکز میں یا کھلے عوامی مقامات پر موجود اے ٹی ایمز کا استعمال کسی دور دراز کونے میں واقع اے ٹی ایم سے بہتر ہوتا ہے جہاں لوگوں کی رسائی محدود ہے۔

ایسے اے ٹی ایمز جو کسی بینک برانچ کے اندر ہوں جہاں سے صارفین گزر کر دیگر سروسز کے لیے بینک میں جاسکیں، وہاں بھی اسکیمرز کے نصب ہونے کا امکان کم ہوتا ہے اور وہاں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے، خاص طور پر معمول کے بینکنگ اوقات میں۔

مصروف اے ٹی ایمز کو اکثر بھرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں کہ بینک کا عملہ کسی بھی قسم کی مشکوک سرگرمی کو پکڑ لے۔

کسی مخصوص اے ٹی ایم کا استعمال معمول بنالینا اور اس کے فیچرز کے بارے میں واقفیت آپ کو مشین میں کی جانے والی کسی بھی قسم کی تبدیلی کو پکڑنے میں مدد دیتی ہے۔

اگر آپ کچھ غیرمانوس یا عام معمول سے ہٹ کر دیکھیں، تو فوری طور پر رک جائیں اور دستیابی کی صورت میں بینک کے کسی فرد سے مشین کو چیک کرنے کا کہیں یا وہاں سے آگے بڑھ جائیں کیونکہ ہوسکتا ہے اس مشین میں تحریف کی گئی ہو۔

کارڈ سلاٹ کے اوپر موجود کور کو ہلانے کی کوشش کریں، اس کے لیے متعدد طریقے ہوسکتے ہیں مگر اس کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، اسکیمرز عام طور پر چپکائے یا ٹیپ کی مدد سے لگائے جاتے ہیں، جنھیں بہت آسانی سے فکس اور ہٹایا جاسکتا ہے۔

اضافی حفاظتی اقدامات

جب کارڈ سلاٹ میں ڈالیں، تو ہلکے سے ہلا جلا لیں، ایسا کرنے سے اسکیمر کی ڈیٹا پڑھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، ایسی بیشتر ڈیوائسز کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ کارڈ کو ہموار طریقے سے سلاٹ میں ڈالا جائے۔

جب پن کوڈ انٹر کریں تو بٹنوں کو ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کور کرلیں چاہے وہاں کوئی اسکیمر یا کیمرہ نہ ہو، اس طرح کرنے سے آپ اپنے قریب موجود افراد کو پن کوڈ کے نمبر جاننے سے بھی روک سکتے ہیں۔

ایسے اے ٹی ایم کو استعمال کرنے سے گریز کریں جو سائیڈ واک میں نصب ہو یا ویران اور ایسے مقامات پر ہو جہاں لوگوں کا آنا جانا کم ہو۔

اُس وقت اے ٹی ایم استعمال کرنے سے گریز کریں جب لوگ آپ کے ارگرد موجود ہو اور آپ کو دیکھ رہے ہوں۔

اگر ہفتہ وار تعطیل پر کسی اے ٹی ایم کو استعمال کرنا بہت ضروری ہوجائے تو کچھ دور جائیں اور کسی ایسے بینک کے اندر جاکر استعمال کو ترجیح دیں جہاں گارڈز موجود ہوں یا وہ بڑے شاپنگ مالز میں ہو۔ جرائم پیشہ افراد بینکوں کی بندش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکیمرز نصب کرتے ہیں اور اگر کوئی صارف کچھ غیرمعمولی نوٹ بھی کرلے تو بینک کی جانب سے ردعمل کے اظہار میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔

اے ٹی ایم میں کسی بھی قسم کی مشکوک سرگرمی کو متعلقہ بینک میں رپورٹ کریں، بیشتر اے ٹی ایمز مین فونز لگے ہوتے ہیں جو براہ راست ہیلپ لائن سے منسلک ہوتے ہیں، ایسا نہ ہونے پر کسی موبائل یا لینڈ لائن سے جلد از جلد اپنے بینک کو کال کریں۔ ایسا کرنے پر بینک کی کوشش ہوگی کہ آپ کے کارڈ کے استعمال سے کسی قسم کے فراڈ کے خطرے کو کم از کم کردیا جائے۔

چپ والے کریڈٹ کارڈ کی صورت میں ریٹیلرز سے مقناطیسی پٹی کی بجائے چپ استعمال کرنے کا مطالبہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے ڈیٹا زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔

ہمیشہ اپنے مجاز فون پر دستیاب ہوں، کیونکہ کسی بھی مشتبہ ٹرانزیکشن کی صورت میں اس کی تصدیق کے لیے بینک کی جانب سے آپ کو کال کی جائے گی، یہ خاص طور پر اس وقت بہت ضروری ہے جب آپ اپنے کارڈز کو اندرون یا بیرون ملک سفر کے دوران استعمال کریں۔

دوران سفر ایسے کارڈ کو اپنے پاس رکھیں جسے عوامی ٹرمینلز پر استعمال کے دوران محدود رقم نکالی جاسکے، ایسا کرنے سے آپ کے ہدف بننے کا امکان کم ہوجاتا ہے، خاص طور پر ایسی جگہوں پر جہاں کے اے ٹی ایم یا کریڈٹ کارڈ ٹرمینلز آپ کے لیے جانے پہچانے نہ ہوں۔

کبھی ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کو ٹرانزیکشن کے لیے کسی کے حوالے نہ کریں، ہمیشہ یہ کام اپنے سامنے کرائیں اور بیرون ملک ہوسکے تو کارڈ کو سوائپ بھی خود کریں۔

ہر قسم کے ٹرانزیکشنز کے لیے اپنے بینک کی ایس ایم ایس/ ای میل الرٹس سروسز کو حاصل کریں۔

اپنے بینک اسٹیٹمنٹس کو اکثر چیک کریں اور کسی بھی مشتبہ ٹرانزیکشن پر رپورٹ کریں۔

یاد رکھیں کہ اگر آپ ایسا کریڈٹ کارڈ کرتے ہیں جس کا ڈیٹا گرفت میں آجائے تو آپ کو ڈیبٹ کارڈ کے مقابلے میں زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد آپ کے ڈیٹا کو کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ٹرانزیکشنز کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ پکڑے جانے سے بچ سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بیشتر ڈیبٹ کارڈز کے مقابلے میں کریڈٹ کارڈز میں پیسوں کی لمٹ زیادہ ہوتی ہے۔

یہ مضمون سب سے پہلے ڈان سنڈے میگزین میں 17 جولائی کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں