صبح آفس کے لیے گھر سے نکلتے ہوئے ٹی وی پر خبرنامے کے دوران ایک کمرشل بریک میں اشتہارات کے بیچ ایک ملی نغمے نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ 'اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔'

گاڑی اسٹارٹ کی تو ایف ایم ریڈیو بھی آن ہوگیا۔ 'جب تک ہے جاں میں جاں تو جوش کو رکھ جواں، اے جواں' دھن بہت اچھی ہے کانوں کو بھی یہ نغمہ بھلا لگا۔ آفس میں سارا دن یوم آزادی کے قریب آنے پر خصوصی تیاریوں کی رپورٹنگ میں گزرا۔

سرکاری ٹی وی سمیت ہر چینل پر زور و شور سے جشن آزادی کی کوریج جاری ہے، ظاہر ہے ملی جذبات کو گرمانے کے لیے الیکٹرانک میڈیا بہترین ٹول کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

مجھے یاد آیا کہ 1965 کی جنگ کے دوران جب سرحدوں پر جنگی محاذ پر پاک افواج کے جوان سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے تھے، اس وقت میڈم نور جہاں کے روح کو گرما دینے والے ملی نغمے 'اے وطن کے سجیلے جوانوں، میرے نغمے تمہارے لیے ہیں' اور 'رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو' جیسے پرجوش نغمے ہمارے جوانوں کے حوصلے بلند کرتے رہے۔

آزادی کا جو تسلسل قائد سے شروع ہوا اسے اپنی بیش بہا قربانیوں کی قیمت ادا کر کے جاری رکھا، قوم ان جوانوں اور ان شہریوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔

گھر واپسی کا وقت ہوا، پارکنگ سے گاڑی نکالی اور مرکزی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے سڑک کے دونوں جانب ہر اونچے پول، ہر عمارت پر قومی پرچموں کی بہار دیکھی۔

اشتہاری ہورڈنگز پر جشن آزادی کی خوشی میں رعایتی سیل اور موقع کی مناسبت سے سبز و سفید ملبوسات کی آفرز پر نظر پڑی۔ قریب سے ایک گاڑی تیزی سے گزری جس میں بجنے والے گیت کے بول نئے نہ تھے، ہاں وہی آپ کا اور میرا پسندیدہ سدا بہار نغمہ 'دل دل پاکستان ۔ ۔ ۔ جان جان پاکستان' جس کی دھنوں پر تھرک کر نوجوان نسل اپنے محب وطن ہونے کی تجدید کرتی ہے۔

میری گاڑی محلے میں داخل ہوئی تو تقریباً ہر گلی کے کونے پر قائم چھوٹے اسٹالز پر بچے پرجوش ہو کر سبز ہلالی جھنڈیاں، بیجز، ٹوپیاں، اسٹیکرز، رسٹ بینڈز اور ہر سائز کے قومی پرچم چھوٹے ہاتھوں میں تھامے بیٹھے تھے، یہ ننھے بچے اپنی حب الوطنی کو ظاہر کرنے کا واحد یہی تو طریقہ تھا۔ میری دعا ہے کہ اس نسل میں حب الوطنی کا جذبہ یونہی قائم رہے اور ملک و ملت کی خدمت کریں۔

پھر عمارتوں پر لہراتے سبز ہلالی پرچم کو دیکھ کر نغمہ بے ساختہ زبان پر آگیا 'ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم یہ پرچموں میں عظیم پرچم' مگر اس پرچم کی حرمت اور قدر صرف یوم آزادی تک ہی کیوں محدود ہے؟

پیارے پاکستان میں جشن آزادی کی تیاریاں اپنی جگہ، مگر ملک کے بڑے شہروں میں ایک اور خوفناک حقیقت بھی موجود ہے جو وحشتوں اور دہشتوں کا احساس دلاتی رہتی ہے۔

ایسے وقت میں جب پاک وطن پر خوف و دہشت کا راج ہو، دھرتی کا ایک انگ بلوچستان تازہ سانحے سے زخم زخم ہو، درجنوں معصوم وکیلوں اور صحافیوں کے جنازے ان کے اسی آنگن سے اٹھائے گئے ہوں جہاں انہوں نے گذشتہ برس اپنے بچوں کے ساتھ مل کر جھنڈیوں اور قمقموں سے اپنے آشیانوں کو سجایا تھا۔ صوبہ پنجاب کے شہر راول پنڈی میں خنجر گروپ شام ڈھلتے ہی خواتین پر چھرے گھونپ رہا ہے۔

ادھر لاہور کے بعد دیگر شہروں میں بھی کم سن بچوں کے اغواء و قتل کے واقعات دہشت کا سبب ہیں۔ کراچی ویسے ہی ٹارگٹ کلنگ کے لیے دہشت گردوں کی پسندیدہ ترین جگہ ہے 'وطن کی مٹی گواه رہنا' گواہ رہنا کہ اسے روز کی بنیاد پر ننھے منے معصوم بچوں اور جوانوں کے خون سے سینچا جا رہا ہے۔

بارودی مواد سے لیس سلیمانی ٹوپی پہنے افراد دھماکے سے پھٹ رہے ہیں۔ ان کے پیاروں کے نہ تھمنے والے آنسوؤں سے اس دھرتی کی آبیاری ہو رہی ہے۔ وہ کم سن بچے جو اپنے بھائیوں اور والد کی مدد سے جھنڈیاں لگاتے تھے، اس بار اپنے باپ اور بھائی کی قبر پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے۔

ٹی وی پر ایک وقت کے لیے ملی نغمہ چل رہا ہوتا ہے جبکہ اگلے لمحے کوئٹہ دھماکے، لاہور میں بچوں کی اغوا کاری یا راولپنڈی میں چھرا گروپ جیسے سنگین جرائم کی بریکنگ نیوز دل کو تو دہلاتی ہیں اور سرسبز سجاوٹ، ملی نغموں کی سریلی آوازوں کو مدھم کر دیتی ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا دہشتگردی کو ہم اپنی حب الوطنی پر غالب آنے دیں؟

بالکل بھی نہیں مگر دہشتگردی کو اس وقت تک شکست نہیں دی جاسکتی جب تک کہ ہم متحد ہو کر اپنے درمیان کالی بھیڑوں کو پہچان کر انہیں خود سے اور ملک و ملت سے الگ نہیں کر دیتے۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ ہتھیار کے ساتھ ساتھ نظریات کی بھی جنگ ہے۔ ہمیں بطور ایک قوم ایک ایسا قومی بیانیہ ترتیب دینا ہوگا جن سے نہ صرف موجودہ دہشتگردی ختم ہو بلکہ اگلی نسلیں بھی اس ناسور سے محفوظ رہیں۔

آج شاید یہ ایک خواب ہے لیکن کوئی ایسا خواب نہیں جس کی تعبیر خدا نے انسان یا کسی متحد قوم کی ہمت اور طاقت سے بالاتر رکھی ہو۔

جشن آزادی بالکل بھی سہما نہیں ہوگا بلکہ اس دن پر اس عزم کی تجدید کی جائے گی کہ اقبال و قائد کے حقیقی پاکستان کی اندرونی و بیرونی سلامتی اور بقا کے لیے جدو جہد جاری و ساری رہے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں