پھوٹے کوئی کرن خود احتسابی کی

14 اگست 2016
— فوٹو خدا بخش ابڑو۔
— فوٹو خدا بخش ابڑو۔
آزادی کا دن ہے وطن عزیز کی ولادت کا دن، خوشیاں منائیں،پٹاخے چلائیں،ریلیاں نکالیں مگر آج کے دن اپنا احتساب بھی ضرور کریں — خاکہ بشکریہ خدا بخش ابڑو
آزادی کا دن ہے وطن عزیز کی ولادت کا دن، خوشیاں منائیں،پٹاخے چلائیں،ریلیاں نکالیں مگر آج کے دن اپنا احتساب بھی ضرور کریں — خاکہ بشکریہ خدا بخش ابڑو

بڑے جگر والے ہیں ہم پاکستانی۔ ہمارے دل کبھی ولولوں سے خالی نہیں ہوتے اور ہماری روایت ہے کہ ہر طرح کے ولولوں اور جذبات کا اظہار دھوم دھڑکے سے کیا جائے ورنہ معلوم کیسے ہو کہ یہ قوم زندہ دل ہے۔ ہے نا؟

شاید اسی لیے خوشی ہو یا غمی ہر موقع پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور کچھ ایسے جوش و خروش سے نکلتے ہیں کہ دوسروں کا باہر نکلنا دوبھر کردیتے ہیں۔ مذہبی تہوار ہو یا قومی جب تک شہر کی مرکزی سڑکوں کو آدھا بلاک نہ کر دیں ہماری کوئی خوشی یا غمی مکمل ہی نہیں ہوتی۔

زیادہ پرانی بات نہیں، رمضان کے آخری دن افطار سے کوئی گھنٹہ بھر پہلے باہر نکلنے کا اتفاق ہوا۔ راستے بھر بدترین ٹریفک جام نے آدھے گھنٹے کا سفر سوا گھنٹے تک بڑھا دیا۔ وجہ؟ آدھی سے زیادہ سڑکیں تجاوزات، خوانچہ فروشوں اور خریداری کے لیے آئی ہوئی گاڑیوں نے گھیر رکھی تھیں، نتیجہ یہ کہ بمشکل ایک گاڑی کے گزرنے کی جگہ بچی۔

ہرطرح کی چھوٹی بڑی گاڑی کے مالکان سڑکوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے گاڑیاں بیچوں بیچ پارک کیے خریداری میں مصروف تھے۔ باقی رہی سہی کسر موٹر بائیکس نے پوری کردی، جس پر براجمان ساٹھ برس کے جوان بھی خود کو ہولی وڈ کا ہیرو سمجھنے لگتے ہیں اور خوب کمر لچکا لچکا کے ٹریفک کے بیچ میں سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پڑھیے: پاکستانی لائن میں کیوں نہیں لگ سکتے؟

جو زیادہ جذباتی ہیں وہ فٹ پاتھ پر بھی چڑھ جاتے ہیں۔ ٹریفک وارڈن ہو یا نہ ہو اسکی کوئی پروا نہیں، وہ تو صاحب لوگ کا نوکر ہے، بھلا اسکو کون خاطر میں لائے۔

چند روز بعد جشن آزادی کے لیے بھی کچھ ایسا ہی جوش و خروش دیکھنے میں آیا. 14 اگست سے دو ہفتے پہلے ہی جگہ جگہ بڑی سڑکوں کے کنارے قومی پرچم اور جھنڈیوں کے اسٹال لگا دیے گئے۔ سونے پہ سہاگہ وہ وہ پڑھے لکھے محب وطن ہیں جو بڑی بڑی گاڑیوں پر سوار وطن کی محبّت سے لبریز اپنے آنکھوں کے تاروں کے ہمراہ، چاند ستارے والے پرچم خریدنے تو آئے لیکن شہری شعور گھر چھوڑ آئے۔

نتیجہ؟ کئی سو فٹ چوڑی سڑکیں کسی پرانے محلّے کی تنگ گلیوں کا منظر پیش کرنے لگیں، ٹریفک جام لیکن مجال ہے جو ایک گاڑی بھی اپنے مقام سے ہلے یا ایک اسٹال بھی اپنی جگہ سے پیچھے ہٹے۔ کبھی شہروں کی سڑکیں عید بازاروں کا منظر پیش کرتی ہیں تو کبھی بکرا منڈی بن جاتی ہیں۔ تعفن کا بھبکا اڑاتی کچرا کنڈیوں کا منظر تو پورا سال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

غم کا اظہار بھی ہم اسی طرح کرنا پسند کرتے ہیں بلکہ جذبات کی رو میں بہہ کر اس سے دو چار ہاتھ آگے ہی نکل جاتے ہیں۔ اپنے تو خیر سے اپنے ہیں، ہمیں تو دوسروں تک کا دکھ بھی ہر لمحہ کھائے رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی، بجلی، گیس سے لے کر کشمیر و غیرہ تک ہر بات کا غم سڑکوں پر ٹائر جلائے، چار چھ گاڑیوں کو توڑے پھوڑے بغیر ریکارڈ ہو ہی نہیں سکتا۔

شہری شعور سے بیگانگی، قانون شکنی اور عدم برداشت بھی ہماری شناخت کا خاصہ بن گئی ہے اور اس کی تاویل ہم یہ پیش کرتے ہیں کہ دوسرے بھی تو یہی کر رہے ہیں۔

شہری فرائض سے روگردانی کی یہ محض ایک مثال ہے ورنہ اگر دیکھیں تو زندگی کے ہر شعبے میں شارٹ کٹ اور سہل پسندی ہمارے مزاج میں رچ بس گئی ہے اور اس بات سے قطع نظر کہ اس کے ہمارے اطراف کے ماحول اور دیگر لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھیے: نصف ایمان، صرف اپنے گھر تک؟

ویسے تو ہمارے پاس کرنے کو بڑی بڑی باتیں ہیں، قانون، کرپشن، انفرا اسٹرکچر پر جتنی چاہے آپ ہم سے بحث کروا لیں لیکن جب بات شہری ذمہ داریوں کی آتی ہے تو ہم سے بڑا غیر ذمہ دار کوئی نہیں۔

قانون کیا چیز ہے؟ اصول کس چڑیا کا نام ہے بھائی؟ ہم ایک ٹریفک سگنل تک کے کھلنے کا انتظار نہیں کرسکتے۔ قطار میں کھڑے ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ گھروں کا کچرا سڑک کے کنارے پھینک کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں کہ اپنا گھر تو صاف ہوگیا نا۔ اسی نفسا نفسی میں ہم نے ملک کی ایسی تیسی کر کے رکھ دی ہے۔

آج 14 اگست کا دن بھی ہم نہایت جوش و ولولے کے ساتھ منا رہے ہیں، گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے ہیں, جھنڈیاں بھی سجائی گئی ہیں، ریلیاں نکل رہی ہیں قومی نغمے گائے جا رہے ہیں۔

"موج بڑھے، یا آندھی آئے

دیا جلائے رکھنا ہے

گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں

گھر تو آخر اپنا ہے "

مگر اس دیے کو کیسے جلا کر رکھیں جب ان انہتر برسوں میں ہم نے اس ملک کو کچھ دینے کے بجائے صرف لیا ہی ہے بلکہ یوں کہیں کہ لوٹا ہے۔

جی نہیں یہاں حکمرانوں کا ذکر نہیں ہو رہا، ہم آپ جیسوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ ہم نے خود کون سا اس دھرتی کے دامن کو پھولوں سے سجا دیا ہے جو حکمرانوں کو کوستے ہیں؟ بطور ایک ذمہ دار ہم شہری کون سے فرائض پورے کر رہے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں حکمرانوں پر انگلیاں اٹھانے کا کوئی حق نہیں کیونکہ ملک کو اس حال تک پنہچانے میں ہمارا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا ہمارے حکمرانوں کا۔

جانیے: مزید عالمگیر خان کیوں ضروری ہیں؟

آزادی کا دن ہے، وطن عزیز کی ولادت کا دن ہے، خوب خوشیاں منائیں، پٹاخے چلائیں، ریلیاں نکالیں لیکن آج کے دن اپنا احتساب بھی ضرور کریں۔ بیٹھیں اور سوچیں کہ آپ نے اس ملک کو کیا دیا، کچھ دیا بھی ہے یا نہیں۔

اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا مثال قائم کر رہے ہیں ان کی کیا تربیت کر رہے ہیں۔ سوچیں کہ دانستہ یا نادانستہ آپ نے اسے کتنا نقصان پنہچایا ہے اور اس نقصان کا ازالہ اب کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اپنی شہری ذمہ داریاں کس حد تک پوری کر رہے ہیں۔ ذرا اپنے اطراف نظر دوڑا کر دیکھیے گا، کوشش کیجیے گا اس بار ذرا مختلف نظر سے دیکھیں۔

اور ہاں جب اگلی بار جشن آزادی کی مصروفیات سے فارغ ہو جائیں تو ذرا گلیوں اور سڑکوں پر پڑی جھنڈیاں اٹھا لیجیے گا اور یاد سے چھتوں سے پرچم بھی اتار لیجیے گا ورنہ موسم کی سختیاں جھیل جھیل کر سبز ہلالی پرچم لیروں لیر ہوجائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں