پشاور: صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں نوزائیدہ بچوں کے اغوا میں ملوث گروہ کی نشاندہی پر پولیس نے اپنی بیٹی کو مبینہ اغواکاروں کے ہاتھوں فروخت کرنے والے جوڑے کو گرفتار کرلیا۔

تفتیشی افسر انسپکٹر لال زادہ نے بتایا کہ امتیاز اور ان کی اہلیہ کو نوشہرہ کے پبی روڈ کے علاقے سے چائلڈ ٹریفکنگ کے الزمات کے تحت ان کے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا۔

مذکورہ جوڑے کی نشاندہی گذشتہ ہفتے گرفتار ہونے والے نوزائیدہ بچوں کے اغوا میں ملوث گروہ کی مرکزی ملزم وجیہہ نے کی تھی۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ وجیہہ نے پولیس کو تفتیش کے دوران مذکورہ جوڑے کے حوالے سے معلومات فراہم کی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ملزمان نے گروہ کے ہاتھ اپنا بچہ ایک لاکھ روپے میں فروخت کیا تھا۔

دوسری جانب ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ملزم امتیاز نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کی۔

ساتھ ہی انھوں نے الزام لگایا کہ چونکہ وہ ایک غریب شخص ہے، لہذا انھوں نے اپنی بیٹی کو بہتر مستقبل کی خاطر وجیہہ کے حوالے کیا تھا، جس نے خود کو ڈاکٹر ظاہر کیا تھا۔

مزید پڑھیں:نومولود بچوں کو اغوا کرکے فروخت کرنے والا گروہ گرفتار

امتیاز نے مزید الزام لگایا کہ ان کے منع کرنے کے باوجود بھی وجیہہ نے انھیں 70 ہزار روپے ادا کیے۔

انسپکٹر لال زادہ کا کہنا تھا کہ میٹرنٹی ہومز اور ہسپتالوں کا عملہ نوزائیدہ بچوں کی خریدو فروخت کے دھندے میں ملوث ہے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل پولیس نے پشاور سے نومولود بچوں کو اغوا کرکے انہیں فروخت کرنے والا 6 رکنی گروہ گرفتار کیا تھا، یہ گروہ پشاور کے مختلف میٹرنٹی ہومز اور ہسپتالوں سے نومولود بچوں کو اغوا کرکے انہیں پیسوں کے عوض فروخت کرتا تھا۔

ایس ایس پی آپریشنز عباس مجید مروت کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں کی نرسیں، ڈاکٹرز اور دیگر عملہ نومولود بچوں کے اغوا میں ملوث تھا۔

مزید پڑھیں:پنجاب: 98 فیصد ’اغواء شدہ‘ بچوں کی واپسی

یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں ملک کے اکثر علاقوں خصوصاً پنجاب اور پشاور میں بچوں کے اغواء کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔

پنجاب خاص طور پر لاہور میں بچوں کی بڑے پیمانے پر گمشدگی نے والدین کو خوف زدہ کررکھا ہے۔

گذشتہ دنوں پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے پیش کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2011 سے جولائی 2016 کے دوران 6 ہزار 793 بچے اغواء یا لاپتہ ہوئے تاہم ان میں سے 98 فیصد بچے یعنی 6 ہزار 661 بچے یا تو واپس آگئے یا انہیں بازیاب کروا لیا گیا جب کہ 132 بچے اب بھی لاپتہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:لاہور میں بچوں کے اغوا کے حقائق اور شبہات

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بچوں کے اعضاء نکالے جانے سےمتعلق خبریں بھی محض افواہیں ہیں، کمیٹی کو ایک بھی ایسا کیس نہیں ملا جس میں کسی بچے کے اعضاء نکالے گئے ہوں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر بچے لاہورکے پسماندہ علاقوں سے گھروں سے بھاگ رہے ہیں اور اب تک کے گمشدگی کے کیسز میں 98 فی صد بچے مل چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں