پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ کثیر آبادی والا صوبہ ہے جو اس وقت دس کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے۔ دنیا کے دیگر، ترقی یافتہ حصوں میں اتنی بڑی آبادی کے ملک ہوتے ہیں نہ کہ صوبے۔

بابائے سیاسیات ارسطو نے فرمایا تھا کہ ریاست کی آبادی بہت زیادہ نہیں ہونی چاہیے تاکہ ریاست اپنی ضروریات کے لحاظ سے خود کفیل ہو۔ افسوس کہ ارسطو کی یہ بات ہمارے حکمران طبقے کے کانوں تک نہیں پہنچی۔

پنجاب میں مزید صوبوں کا قیام ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور جب تک اقتدار حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس ہے، مزید صوبوں کا قیام نہیں ہو پائے گا حالانکہ صوبائی اسمبلی مزید دو صوبوں کے قیام کی قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کرچکی ہے۔

مگر سیاسی مصلحتوں کے تحت پنجاب میں مزید صوبے قائم نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور تیزی سے سماجی مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔ اس معاملے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لاہور اتنی بڑی آبادی کے صوبے کا واحد دارالحکومت ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2014 میں پنجاب میں سب سے زیادہ جرائم لاہور میں ہوئے جبکہ پنجاب بھر کی مجموعی طور پر صوبے میں جرائم کی شرح میں پورے ایک سو دس اضافہ ہوا۔

لاہور میں مسائل کی وجہ؟

عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لاہور کے سماجی مسائل نئی بات نہیں ہیں، یہ وہی مسائل ہیں جن کا سامنا کراچی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں کو بھی ہے۔

لیکن جناب ان شہروں کے ساتھ ساحلی بندرگاہیں ہیں جن کی وجہ سے ان میں روزگار کے مواقع کی زیادتی ہونا ایک فطری عمل ہے۔ جبکہ لاہور کا سب سے بڑا مسئلہ اتنے بڑی آبادی کا واحد دارالحکومت ہونا ہے۔ اگر پنجاب میں مزید انتظامی یونٹ قائم کیے جائیں تو نہ صرف پنجاب کی خوشحالی و بہبود میں اضافہ ہوگا بلکہ لاہور کے مسائل خود بہ خود کم ہوجائیں گے۔

پڑھیں: ایک نغمہ لاہور کی یاد میں

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ان سماجی مسائل کو تسلیم کرتی اور مستقل بنیادوں پر ان کے حل کرنے پر غور کرتی مگر یوں لگتا ہے کہ حکومت نے اشتہارات کی طاقت سے ان مسائل کو میڈیا سے تقریباً غائب ہی کر دیا ہے اور پورے ملک میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ، ’’اگر ملک کے کسی شہر میں ترقی، امن اور خوشحالی قائم ہے تو وہ لاہور ہے‘‘۔

مگر یہ خیال حقیقت سے کوسوں دور ہے۔

شہر کی اراضی اور آبادی

آبادی کے بڑھتے سیلاب سے لاہور میں سماجی مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اگر پالیسی سازوں نے دور اندیشی سے ان مسائل کے برے اثرات کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے تو ممکن ہے کہ لاہور کے مسائل، کراچی کی طرح پورے ملک کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔

ہر شہر میں آبادی اور زمینی لحاظ سے ایک محدود گنجائش موجود ہوتی ہے اور بہترین سے بہترین نظام یا شہری حکومتیں گنجائش سے زیادہ بڑے شہر کے مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہوجاتی ہیں۔

پھر لاقانونیت، تشدد، بدامنی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف معاشی و اقتصادی صورت حال پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ حقِ حکمرانی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔

ویسے تو لاہور کے مسائل کی عکاسی ایک بلاگ میں نہیں کی جاسکتی مگر چند اہم بنیادی مسائل جو کہ آگے جا کر بڑے مسائل کو جنم دیتے ہیں ان کا ذکر ضرور یہاں کرنا چاہوں گا۔

صاف پانی اور خوراک کے مسائل

لاہور میں فی الوقت تو صاف اور میٹھا پانی دستیاب ہے مگر اس کی سطح تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس وجہ سے شہر کی آبادی کا بڑا حصہ، خاص طور پر گنجان علاقوں میں صاف پانی اور نکاسی آب کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔

لاہور کی آبادی ایک کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ یہ بھی ایک اندازے کے مطابق شرح ہے کیونکہ گذشتہ دس سالوں سے ملک میں نہ تو مردم شماری ہوئی ہے اور نہ ہی کسی باوثوق ذمہ دار ادارے کے پاس آبادی سے متعلق درست اعداد و شمار موجود ہیں۔

ایک کروڑ کی آبادی کے لیے ہر روز بڑی تعداد میں اشیاء خورد و نوش کی ضرورت پڑتی ہے۔ افسوس کے ساتھ طلب و رسد میں عدم توازن کی وجہ سے شہر میں ملاوٹ شدہ اور ناقص اشیا خوارک بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتی ہیں۔

پڑھیں: لاہور کا وائٹ ہاؤس

ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق لاہور میں ہر روز 30 لاکھ لیٹر تازہ دودھ کی ضرورت پڑتی ہے۔ لاہور کی شہری حکومت نے لاہور میں مویشی پالنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے لہٰذا تمام ڈیری فارمز شہر کے اردگرد قصبوں اور دیہاتوں میں واقع ہیں۔

ضلعی انتظامیہ نے دودھ کے نرخ 65 روپے فی لیٹر مقررکر رکھے ہیں مگر فارمز شہر کے باہر ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دودھ 70 سے 85 روپے فی لیٹر فروخت کیا جاتا ہے۔ جبکہ وہ دودھ بھی ناقص معیار کا ہوتا ہے کیونکہ دودھ کی رسد، طلب کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

تھوڑا معیاری دودھ 100 سے 110 روپے فی لیٹر فروخت ہوتا ہے، لہٰذا کم آمدنی والے افراد جو آبادی کا بڑا حصہ ہیں، ناقص دودھ استعمال کرتے ہیں۔

ناقص دودھ میں صرف پانی ہی نہیں بلکہ انتہائی مضرِ صحت اور جان لیوا مختلف کیمیکلز کی ملاوٹ بھی کی جاتی ہے۔ اس ملاوٹ کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ دودھ قریبی شہروں سے آتا ہے جو کہ گھنٹوں سفر کے بعد صارفین تک پہنچتا ہے، اس لیے دودھ کو خراب ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے کیمیکلز ملائے جاتے ہیں۔

آبادی کے اس قدر پھیلاؤ سے لاہور کے ارد گرد زرعی زمینیں جن پر خوراک کاشت ہوتی ہے، ان پر رہائشی آبادیاں قائم ہوچکی ہیں، جس وجہ سے لاہور میں سبزیوں، پھلوں اور دیگر اجناس کے معیار میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

لوگ لاہور کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

پنجاب کا مرکز ہونے کی وجہ سے سب کچھ لاہور میں ہی موجود ہے۔ یہ نہ صرف صوبے کا سیاسی مرکز ہے، بلکہ تمام تر اختیارات کی تقسیم اور حصول کے لیے یہاں حاضری دینا لازمی ہے۔

سپریم کورٹ، ہائی کورٹ سمیت تمام اہم عدالتیں بھی یہاں موجود ہیں جبکہ لاہور میں صوبے کا واحد معیاری بین الاقومی ہوائی اڈہ بھی واقع ہے۔ جسے سالانہ 80 لاکھ افراد استعمال کرتے ہیں۔

اکثر ایئر لائنز کی آمد اور روانگی صرف لاہور تک ہی محدود ہے۔ لہٰذا ان مسافروں کو مختلف سواریوں سے اپنے آبائی علاقوں میں جانا ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں بیورو کریسی کا مرکز سول سیکرٹریٹ، صوبے کے اعلیٰ اور معیاری تعلیمی ادارے، اہم ثقافتی و تجارتی مراکز کا بھی لاہور میں ہی واقع ہیں۔

لاہور میں کئی نجی اور سرکاری یونیورسٹیاں بھی قائم ہیں،اسی طرح میڈیکل کالجز اور دیگر روایتی اور پروفشنل کالجز کی بڑی تعداد بھی لاہور ہی میں قائم ہے۔ تمام صوبے میں اعلیٰ صحت مراکز اور معیاری ہسپتالوں کی وجہ سے صوبے بھر کے مریض لاہور کا رخ کرتے ہیں۔

صوبہء پنجاب میں روزگار کے سب سے زیادہ مواقع لاہور میں ہیں۔ شہر میں اور اس کے چاروں اطراف بے شمار صنعتی زون قائم ہیں۔ جن میں لاکھوں افراد کام کرتے ہیں۔

ملازمتوں کے کثیر مواقع مگر رہائشی عمارتوں کی کمی

ہزاروں کی تعداد میں لوگ تعلیم اور روزگار کی غرض سے لاہور میں عارضی طور پر قیام پذیر ہوتے ہیں۔ رہائشی عمارتوں کی کمی کی وجہ سے رہائشی جگہوں کی قیمتوں اور کرائے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

پڑھیں: درخشاں یادیں سمیٹے پاکستان کا واحد کرکٹ میوزیم

شہر میں نئے آنے والے کرائے کے مکانات، ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز اور ہوسٹل کا انتخاب کرتے ہیں۔ زیادہ تر ملازمت پیشہ لوگوں کی تنخواہ ماہانہ پندرہ/بیس ہزار روپے سے بھی کم ہے چنانچہ مجبوراً وہ مشترکہ رہائشی ہوسٹل کا انتخاب کرتے ہیں۔

لاہور میں ایسے مکانات بھی ہیں جنہیں ہاسٹلز میں تبدیل کر دیا گیا اور ان ہاسٹلز کے عموماً 12x14 کے کمرے میں دو، تین یا چار افراد رہائش پذیر ہیں۔ ناقص خوراک، ناکافی آمدنی اور غیر صحت بخش رہائش گاہ سے ان افراد کی نہ صرف جسمانی و دماغی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

بے پناہ رش

لاہور میں تعلیمی مراکز، تفریحی مقامات، اور صحت مراکز میں بے پناہ رش ایک عام بات بن چکی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا سیلاب، اکثر جگہوں پر تو سڑکیں، اپنی گنجائش کی آخری تک پہنچ چکی ہیں۔ شاید اب سڑک کو مزید کشادہ کرنا ممکن بھی نہ ہو۔ آخر کتنے اور اوورہیڈ اور انڈر پاسز لاہور کی ٹریفک کو کنٹرول کرسکیں گے؟

شاید یہ بڑھتے ہوئے مسائل کہیں پرامن اور پرسکون لاہور ماضی کا قصہ نہ بنا دیں اور پھر وہ باغوں کا شہر، وہ سرسبز شہر، وہ عظیم تہذیبی و ادبی مرکز، شاید تاریخ کی کتب میں قلمبند ہوں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار تھوڑی عملی طور پر متحرک ہو کر ان مسائل کا حل ڈھونڈیں اور اس کا سب سے اچھا حل پنجاب کے دیگر شہروں میں انتظامی منتقلی ہے۔ اس طرح لاہور کا بوجھ کچھ ہلکا ہو سکے گا۔ خدارا اپنی سیاسی مفادات اور مصلحتوں کو ایک طرف رکھ کر لاہوریوں کا سوچیں۔ کیا ضروری ہے کہ جب لاہور کے حالات بھی کراچی جیسی نہج پر پہنچ جائیں تب ہی حل کرنے کے لیے سوچنا شروع کیا جائے؟

تبصرے (3) بند ہیں

محمد Aug 31, 2016 05:27pm
آپ کی ساری باتوں کو اک بات ہی میں سمویا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔ "اگر کسی کے پیٹ میں گیس بھی ہوجائے تو وہ لاہور کا رخ کرتا ہے" ۔۔۔ آپ نے بجا طور پر فرمایا کہ نئے صوبے بننے چاہیے اور انتظامی کنٹرول آبادیوں کے پاس ہونا چاہیے۔ ابھی تو ان کو احساس نہیں ہو رہا مگر وہ دن دور نہیں جب لاہور کے کراچی سے بھی بر حال ہونگے۔
KHAN Aug 31, 2016 07:16pm
السلام علیکم: فاٹا کو نیا صوبہ بنادیں، تو اس سے دیگر نئے صوبے بنانے کی راہ بھی کھلے گی، مارہرین 101 فیصد اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں انتظامی بنیاد پر نئے صوبے بننا چاہیے، افسوس ن لیگ پر کہ 2013 کے انتخابات سے قبل نئے صوبوں کے وعدے کیے تھے مگر اب انتہائی شرمناک انداز میں ان وعدوں کو بھلا بیٹھی ہیں اور اپنے نام نہاد بادشاہت قائم رکھنے کی ناکام کوشش کررہی ہیں۔ خیرخواہ
Hammad Aug 31, 2016 09:51pm
Pakistan should have 15 to 20 provinces for better administrative management. America is a good example where they have 50 states and all states work and operate peacefully.