السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

ہر باشعور آدمی اس بات کو ضرور محسوس کرتا ہے کہ دنیا میں تغیرات کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ یہ تغیرات ماحولیاتی، جغرافیائی، تہذیبی، ثقافتی، معاشی، علمی اورسائنسی طرزوں میں رونما ہو رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں کسی شئے کو ثبات نہیں- ہر شئے تغیر سے دوچار ہے، لیکن بعض حالات میں تغیرات کی رفتار یا اُن کا احساس بڑھ جاتا ہے-

اس ضمن میں گزشتہ صدی کو تغیرات سے بھرپور صدی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا- اس صدّی کے دوران جہاں ایجادات و اختراعات نے زندگی کے روزمرہ معمولات کو یکسر تبدیل کردیا وہیں تہذیبی، سیاسی، جغرافیائی اور ماحولیاتی طرزوں میں بھی انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئیں-

صرف ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک نہایت حیرت انگیز مثال ملاحظہ کیجیے!

بین الاقوامی جریدے، انٹرنیشنل ٹریبیون کے مطابق، گزشتہ کچھ دہائیوں میں زمین پر آنے والی تبدیلیاں گزشتہ پانچ لاکھ سالوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے زیادہ ہیں۔

تغیر پذیر دنیا میں، اُنہی گروہوں، اقوام اور تہذیبوں کے لیے اپنے مقام کو برقرار رکھنا، اجتماعی مقاصد کا حصول اور مفادات کا تعین کرنا، ممکن ہوتا ہے جنہیں تغیرات کے پسِ پردہ کام کرنے والی حقیقت کا ادراک حاصل ہو۔ خود کو دریا میں بہاؤ کی سمت بے حس و حرکت چھوڑ دینا، یا بہاؤ کی مخالف سمت چلنا، یہ دونوں طریقے عموماً منفی نتائج کا ہی باعث بنے ہیں۔

مسلم دنیا نے جب تغیرات اور عالمگیر تبدیلیوں سے بھرپور ’’بیسویں صدی‘‘ میں قدم رکھا تو اُن کے پاس اپنے شاندار ماضی پر فخر کے سوا شاید کچھ نہ تھا۔ جبکہ اُسی دور میں مغربی ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی کے نئے در تلاش کررہے تھے۔

بیسویں صدی کے نصف کے دوران، مغربی یورپ میں کئی ایجادات ہوئیں۔ الیکٹرانکس کا دور شروع ہوا، جدید ذرائع مواصلات و نشریات کے ذریعے فاصلے کم ہونے لگے اور بات صرف یہیں تک نہیں رُک گئی- بلکہ بیسویں صدّی کی ابتداء میں ہی دوسرے سیاروں اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی تیاریاں بھی ہونے لگیں-

دوسری طرف مسلمان معاشروں میں جمود طاری رہا۔ ان معاشروں میں نہ تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کی گئی اور نہ ہی علم و دانش کے فروغ کا باقاعدہ کوئی انتظام کیا گیا۔ بلکہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اکثر مسلمان معاشرے، دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔

ایک اقلیتی حصہ وہ تھا، جو یورپ کی ترقی کو دیکھ کر، اپنی قوم کو بھی علم و دانش کی راہ اختیار کرنے پر اصرار کرتا تھا جبکہ دوسرا طبقہ، اکثریت میں تھا اور جدید ترقی کو شیطانی کھیل قرار دے کر اُس کی پُر زور مخالفت کرتا رہا۔

یہ صورتحال 15 ویں صدّی عیسوی کے مغرب سے ملتی جلتی ہی تھی جب کہ کولمبس انڈیا کی تلاش میں بحری سفر پر نکلا تو اُس دور میں عیسائی مذہب کے اجارہ داروں کا خیال تھا کہ زمین گول نہیں بلکہ چپٹی ہے۔ یہ نظریہ اُس وقت پوری دنیا میں رائج تھا۔

بہت سے عیسائی پادریوں نے کولمبس کو مشورہ دیا کہ وہ نامعلوم سمتوں کا سفر اختیار نہ کرے کیوں کہ زمین چپٹی ہے اور یہ ممکن ہے کہ تمہاری کشتی زمین کے آخری سرے پر پہنچ کر ’’نیچے‘‘ لڑھک جائے۔

مسلم دنیا میں توہمات پرستی، ظاہر پرستی اور جمود پسندی کی سینکڑوں مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی ایجاد پر ہمارے ہاں کے غیر سنجیدہ، غیر علمی اور روایت پسند مذہبی طبقے نے یہ کہہ کر خوب واویلا مچایا کہ ’’لاؤڈاسپیکر میں شیطان بولتا ہے اور وہی آواز کی شدّت کو بڑھا دیتا ہے۔‘‘

جمود پسند طبقات، کسی بھی معاشرے کے ہوں، وہ اِس حقیقت سے لاعلم ہوتے ہیں کہ ایجادات اور اختراعات کرنے والے ذہن، اُن کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ اُن کے اندر یہ جنون قدرت کی طرف سے انسپائر ہوتا ہے- اگر ایسا نہ ہوتا تو یقیناً آج کا انسان بھی غاروں اور جنگلوں میں زندگی بسر کررہا ہوتا۔

نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد یہ حقیقت، مسلم دنیا کے سامنے آ گئی کہ اب انہیں امریکہ یا روس میں سے کسی ایک کا سہارا لے کر آگے بڑھنا ہو گا۔

مسلم دنیا کا غیرجانبدارانہ طور پر تجزیہ کیا جائے تو یہ منظر سامنے آتا ہے کہ ایک طبقے نے خود کو زمانے کی شوریدہ سر لہروں کے سپرد کر دیا اور دوسرے طبقے نے بہاؤ کی مخالف سمت تیرنے کی کوشش کی- یوں اجتماعی طور پر سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہ ہو سکا۔

آج دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہونے اور 70 فیصد سے زیادہ معدنی تیل کے مالک ہونے کے باوجود، مسلمانوں کی عالمی سطح پر کوئی مؤثر آواز نہیں ہے- بلکہ دنیا کی بساط پر اُنہیں مہروں کی طرح، جدھر جی چاہا، دھکیل دیا جاتا ہے۔ 1969ء میں مسلمانوں نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک عالمی اسلامی تنظیم (او آئی سی) کی بنیاد رکھی تھی- لیکن اس کا سفر دائرے کا سفر بھی ثابت نہ ہوسکا اور یہ جس مقام پر کھڑی تھی، ابھی تک اپنی بے بسی، بے اختیاری اور بے عملیوں کے ساتھ اُسی مقام پر ہی کھڑی ہے۔

بعض مسلمان دانشوروں کا تو خیال ہے کہ ’’او آئی سی‘‘ کے ہونے سے اس کا نہ ہونا بہتر تھا- کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح مسلمان، انفرادی طور پر ہی شاید اپنے مسائل کا بہترحل سوچ سکتے۔

اقوامِ متحدہ میں مسلمانوں کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان ہیں- لیکن ان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ غرض صورتحال ایسی ہے کہ مسلمان عالمی معاملات میں مؤثر اور مثبت مداخلت تو کیا، اپنے خلاف ہونے والے پراپیگنڈہ کا جواب دینے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔

ترقی یافتہ مغربی دنیا انیسویں صدی کے جاگیردارانہ معاشرے سے صنعتی معاشرے میں تبدیل ہو کر کمیونی کیشن اور میڈیا کے دور میں داخل ہوچکی ہے۔

آج کے مسلم معاشروں میں سطحی، جذباتی سوچ رکھنے والے، روایت پسند مذہبی طبقے نے شاید کبھی نہیں سوچا کہ میڈیا کے پراپیگنڈے کا مثبت جواب دینے کے لئے طاقتور میڈیا پر کنٹرول ہونا بھی ضروری ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عالمی سطح پر جب بھی پراپیگنڈے کی نئی لہر اٹھتی ہے تو مسلمان ممالک کا سرکاری یا مقامی نوعیت کا نجی میڈیا جذباتی انداز میں اُسے رَد کرکے مطمئن ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ دوسری طرف، عالمی سطح پر کہی ہوئی بات، پوری دنیا میں گونجتی ہے اور ہمارا کمزور جواب شاید خود ہمیں بھی سنائی نہیں دے پاتا۔

اس وقت، مسلمان ملکوں میں تعلیم کی صورتحال یہ ہے کہ دو چار ملکوں کو چھوڑ کر پورے 56 یا 57 ملکوں میں 60 فیصد سے زیادہ شرح خواندگی کا حامل ملک نہیں ملتا جب کہ مغربی ملکوں کا تو ذکر ہی کیا۔ سری لنکا جیسے غیرترقی یافتہ ممالک میں بھی شرح خواندگی 99 فیصد ہے۔

پورے عالمِ اسلام کے پاس کوئی جدید یونیورسٹی نہیں ہے۔ جامعات تو کئی ہیں لیکن ان میں ہارورڈ، آکسفورڈ، اسٹینفورڈ یا اُس جیسی دوسری یونیورسٹیوں کا مقابلہ تو درکنار ان کے 50 فیصد پر بھی پورا اُترنے کی ہمارے پاس صلاحیت ہے نہ اہلیت۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سارے عالمِ اسلام میں ایک خوفناک قسم کا علمی جمود نظر آتا ہے۔

امریکہ اور مغرب کی جدید ریسرچ اور اقتصادی جکڑ بندیوں کے منصوبوں کے مقابلے کے لئے اگر ہمارے پاس کوئی ہتھیار ہے تو وہ محض ہماری ’’جذباتیت‘‘ اور خواہ مخواہ کے جوشیلے پن کے سوا اور کچھ نہیں، جسے بعض ظاہر پرست رہنما ’’ایمان‘‘ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ یہ دونوں ہتھیار وہ ’’کھوٹے سکے‘‘ ہیں جو آج کی عالمی منڈی میں نہیں چل سکتے۔

آج مسلمانوں کا امریکہ سے یہ گلا بجا ہے کہ اس نے ہمارے ساتھ وفا نہیں کی۔ بلکہ سرد جنگ میں سوویت یونین کے خلاف بے دریغ استعمال کر کے ’’دہشت گردی کا تمغہ‘‘ ہمارے سینوں پر سجا کر انتہائی بے اعتنائی سے ہمیں خود سے جدا کردیا۔

لیکن ہمیں اس پر جذباتی ردِعمل دینے کے بجائے بڑے حوصلے اور ہوشمندی سے سوچنا ہو گا کہ یہ دنیا ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی دنیا ہے۔ یہاں بہتری کا بدلہ بہتری سے نہیں ملتا۔ ایسا ہوتا ہی آیا ہے اور شاید ایسا ہی ہوتا رہے۔

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنا حق لینے کے لیے ماضی کی وفاداریوں کی نشاندہی کام کی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کا نظام ہی چلتا ہے لیکن ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے لیے بھی طاقتور ہونا بہت ضروری ہے ورنہ خود مختاری کا ڈھول کتنا ہی پیٹا جائے، اس کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی اور صرف دینا ہی دینا پڑتا ہے۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Shahid Irshad Jun 28, 2013 05:47am
As usual it is a very sensible piece of writing and should be eye opener for everyone.
کمال ایوب Jul 28, 2013 06:49pm
بہت خوب