'مسئلہ کشمیرحل کرلیں تاکہ ہم زندہ رہ سکیں'

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2016
سرحد پر چلہانہ کے مقام پر پاکستانی اور ہندوستانی فوجی افسران فلیگ میٹنگ کرتے ہیں—۔فوٹو/ ابرار حیدر
سرحد پر چلہانہ کے مقام پر پاکستانی اور ہندوستانی فوجی افسران فلیگ میٹنگ کرتے ہیں—۔فوٹو/ ابرار حیدر

مظفرآباد: آزاد کشمیر کی جنت نظیر وادی نیلم پر اِن دنوں خوف کی فضا طاری ہے، یہاں کے مکینوں کو ہر وقت اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب ہندوستانی افواج کی جانب سے فائرنگ شروع ہوجائے، اس خوف نے ان کی زندگیوں کا چین، سکون چھین رکھا ہے۔

وادی نیلم کے گاؤں کیسریاں اور ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں تقریباً 70 فٹ چوڑا دریائے نیلم لائن آف کنٹرول بناتا ہے اور ہم بھارتی چوکی سے، جہاں سے مسلح فوج ہم پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں، تقریباً 60 سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر پاک-بھارت کشیدگی اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے بارے میں وادی نیلم کے رہائشی افراد کے خیالات وجذبات جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔

محمد اکسیر بٹ وادی نیلم کے رہائشی اور 90 کی دہائی میں بھارتی فائرنگ کے عینی شاہد ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ 14سالہ فائرنگ کے دوران متعدد افراد نے جانیں گنوائیں، سیکڑوں ٹانگوں سے محروم اور زخمی ہوئے، کروڑوں کی جائیدادیں تباہ ہونے کے ساتھ انفراسٹرکچر بھی بھاری ہتھیاروں کی زد میں آکر ختم ہوا۔

نیلم کے ہزاروں افراد کے اذہان سے وہ تکلیف دہ ازیت بھری یادیں ابھی محو نہیں ہوئی تھیں کہ ایک مرتبہ پھر کشیدگی کی اطلاعات ہیں اور پوری وادی میں غیر یقینی صورتحال جنم لے چکی ہے۔

اکسیر بٹ کے مطابق 'لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اب ہمارا کیا ہوگا؟ ایل او سی پر فائرنگ کا تصور ہی ہماری روحوں کو لرزانے کے لیے کافی ہے، ہم تباہی نہیں امن چاہتے ہیں۔'

اَپر نیلم کے راجہ محمد سہیل بھی اُن ہزاروں افراد میں شامل ہیں جنہیں ہندوستانی فائرنگ چین نہیں لینے دے رہی، ان کا کہنا ہے کہ 'نیلم ویلی روڈ بھارتی فوج کی چھوٹی گنوں کی زَد میں ہے، اگر گولہ باری شروع ہوئی تو وادی کا دارالحکومت مظفرآباد سے رابطہ منقطع ہو جائے گا، جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ اور خورو نوش کی قلت پیدا ہو گی اور مہنگائی میں کئی گناہ اضافہ ہوگا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'غربت میں مبتلا نیلم کے ہزاروں خاندانوں کی قوت خرید محدود ہے اور اس سڑک کی بندش کی وجہ سے نیلم کے عوام بھوک سے مر سکتے ہیں۔ ماضی میں بھی فائرنگ کی وجہ سے لوگ ایک ایک ہفتہ بھوک سے لڑتے رہے اور متعدد بچے غذائی قلت کے باعث داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔'

راجہ محمد سہیل کا کہنا تھا، 'ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ ایسا دور پھر لوٹ آئے جس کے باعث ہم سسک سسک کر موت سے ہم آغوش ہوں، پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر حل کرلیں تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔'

مزید پڑھیں:29 ستمبر کو کشمیریوں نے کیا دیکھا؟

لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف طرزِ تعمیر، رہن سہن، زبان، لباس، ثقافت، معیشت اور یہاں تک کہ غربت بھی ایک جیسی ہی ہے، دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے سے خونی رشتوں میں بھی جڑے ہوئے ہیں، دونوں اطراف میں گزر بسر کے لیے لوگ مال مویشی پالنے کے ساتھ موسم سرما کی آمد سے قبل گھاس، مکئی، اخروٹ، سیب و دیگر پھلوں سے چھ ماہ کے لیے رقم اکٹھی کرتے ہیں، اب جبکہ فصلیں کاٹنے اور اخروٹ چننے کا موسم ہے تو کشیدگی دَر آئی ہے اور وادی نیلم میں خوف اور مایوسی کے سائے لپک رہے ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان 70 برسوں میں 70 فٹ کا فاصلہ ختم نہیں کرسکے حالانکہ دونوں اطراف میں آسمان زمین ایک جیسے ہیں اور ایک ہی سورج کرنیں بکھیر رہا ہے، لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب قدرت کی فیاضی اور فطرت کی فراوانی و روانی کو کوئی تعطل نہیں مگر انسان کو انسان سے ملنے کی اجازت نہیں۔

خود غرضی، جھوٹی انا اور مفادات کے خول میں لپٹی سیاسی قیادتیں، احترام آدمیت کی سمت مراجعت کے لیے آمادہ نہیں اور ایل او سی سے متصل 11 انتخابی حلقوں میں زندگی کی اذیت کاٹنے والے تقریباً 10 لاکھ انسانوں کا یہی المیہ ہے۔

جب میں وادی نیلم کے ضلعی صدر مقام اٹھمقام پہنچا تو بازار کھلا ہوا پایا، مقامی تاجر میر زمان سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی تو ان کے چہرے پر افسردگی کی لہر دوڑ گئی اور دکھ بھرے لہجے میں بولے، 'سب کچھ تباہ ہو جائے گا، ہمیں رات کو نیند نہیں آتی اور دن بھر پریشان رہتے ہیں، بھارتی فوج اونچی چوکیوں پر ہے اور ہم ان کے لیے آسان نشانہ ہیں، یہی خیال ہمیں چین نہیں لینے دیتا'۔

ان کا کہنا تھا، 'نیلم کا ہر شخص خوف اور مایوسی میں مبتلا ہے، یہ جو بازار میں چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں یہ بھی خوف زدہ ہیں، ہم تاجروں نے تنکا تنکا اکٹھا کرکے کاروبار جمائے، ہمارے پاس تو کچھ متبادل ہے ہی نہیں، ہم امن چاہتے ہیں تا کہ اپنے بچوں کا پیٹ مال سکیں، جنگ صرف دکھ دیتی ہے اور ہم نئی نسل کو دکھ میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے۔'

یہ بھی پڑھیں:کشمیری نوجوانوں پر چھروں کا قہر

وادی نیلم میں پہلی ٹَک شاپ کے مالک خواجہ منصف چلہانہ کے رہنے والے اور اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 'ددھنیال میں بھارتی فائرنگ کے باعث پوری وادی میں خوف و ہراس کا سماں رہا، ہم نے ڈر کے مارے کھانا تک نہیں کھایا۔'

ان کا کہنا تھا، 'میرا روزگار اس سڑک اور سیاحت سے وابستہ ہے، فائرنگ سے یہ سڑک بند ہو جائے گی تو میں اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے لیے روٹی کہاں سے لاؤں گا، سڑک چلے گی تو روز گار چلے گا اور بھوک مٹے گی، سیاحت کے فروغ سے ہمیں روٹی ملتی ہے۔'

خواجہ منصف نے اپیل کی کہ 'وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور جنرل راحیل شریف جنگ بندی کروائیں اور مسئلہ کشمیر کا حل مل بیٹھ کر سوچیں کیونکہ ہم بد امنی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔'

3 ہزار 621 مربع کلومیٹر پر مشتمل وادی نیلم آزاد کشمیر کے کل رقبہ کا 27 فیصد ہے، اس جنت نظیر وادی کے باسی 90 کی دہائی میں ہونے والی بھارتی فائرنگ سے جسمانی و نفسیاتی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوئے اور اب فائرنگ کا خیال بھی ان کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے۔

وادی نیلم میں مجھے چند طالبعلم دکھائی دیئے تو اشتیاق ہوا کہ اُن سے جانا جائے کہ وہ پاک بھارت کشیدگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

میٹرک کے طالبعلم وجاہت فاروق اپنے ساتھیوں سمیت گویا ہوئے، 'خدا ایسا وقت نہ لائے، سب کچھ تباہ ہو جائے گا، اسکول کالجز بند ہوں گے تو ہم تعلیم کیسے جاری رکھیں گے، ہمارا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو جائے گا جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے، پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کریں'۔

90 کی دہائی میں بھارتی فائرنگ کی وجہ سے ایک پوری نسل حصول علم سے محروم رہ گئی تھی، انسانیت کو تعلیم سے محروم رکھنا بڑا جرم ہے، میں نے 90 میں ایک مورچے میں پیدا اور پروان چڑھنے والے نوجوان راجہ پرویز سے گفتگو کی تو حیرت زدہ رہ گیا کہ جنگ نے کتنی اقسام کے المیوں کو جنم دیا۔

راجہ پرویز نے بتایا، 'میرا بچپن اور لڑکپن جنگ کی نظر ہوا، جب کھیلنے کی عمر تھی تو میں گولیوں کی آوازوں سے سہم رہا تھا، میری ہنسی اور شرارتیں جنگ کی ہولناکیوں نے چھین لیں اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کب بڑا ہوا، جوانی کیا ہوتی ہے میں تو یہ بھی نہیں جان سکا، اسکول بند تھے اور بھارتی جارحیت کا یہ عالم تھا کہ میرے گاؤں کی مرغیاں اور کتے بھی مار دیئے گئے، میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہا، میں معاشرے میں اجنبی ہوں، دو تین دن مزید دیکھوں گا اور اگر حالات خرابی کی سمت بڑھے تو اپنے خاندان سمیت کیرن چھوڑ دوں گا، یہ جبری ہجرت میرے لیے اذیت کا باعث ضرور ہے لیکن میں اپنے بچوں کا بچپن جنگ کی نظر نہیں ہونے دینا چاہتا۔'

مزید: سری نگر سے ایک خط: ظلم کی رات کب ختم ہوگی؟

شہزاد کاظمی رینٹ اے کار کا کام کرتے ہیں، حالیہ کشیدگی سے پہلے وہ ماہانہ 20 سے 25 ہزار کما رہے تھے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں برس 3 لاکھ سے زائد افراد سیاحت کی غرض سے نیلم پہنچے، امن کے باعث نیلم میں سیاحت نے انڈسٹری کا درجہ اختیار کر رکھا ہے جس سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔

شہزاد کاظمی کہتے ہیں کہ 'جنرل (ر) پرویز مشرف نے سیز فائر کا اعلان کرکے وادی نیلم کو زندہ کیا، یہاں تعمیر وترقی شروع ہوئی اور کاروبار بڑھا، میرے خاندان کا دارومدار مجھ پر ہے، اگر حالات کشیدہ ہوئے تو میرا روزگار ختم ہو جائے گا، اگر ہم ہجرت کریں گے تو گھر اور زمین جائیداد یہیں رہ جائے گی، نیا گھر کہاں بسائیں گے، یہاں تو مورچے بھی نہیں کہ جہاں چھپ کر زندگی بچائی جا سکے، ہم بے موت مارے جائیں گے، ہم ایسے تنازع کا حصہ ہیں جس کے حل کے لیے ہم کچھ نہیں کرسکتے البتہ اس تنازع کا ایدھن ضرور بنے ہوئے ہیں۔'

ایک شاندار گھر کو دیکھ کر جب مالک سے رابطہ ہوا تو راجہ نذیب کو بے حد متفکر پایا، ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے 40 سال کی محنت کے بعد بھی قرضہ لے کر گھر بنایا ہے جو اب گولہ باری کی زَد میں ہے۔

ان کا کہنا تھا، 'میری زندگی کا اثاثہ یہ گھر ہے، میرے پاس سرمایہ نہیں کہ میں دوبارہ گھر بنا سکوں، ہماری تباہی کے لیے صرف ایک گولی ہی کافی ہے، ہم کہاں جائیں اور کیا کریں، امن کی خواہش کے سوا ہم کیا کرسکتے ہیں۔'

آزاد کشمیر میں عمومی تاثر یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی کمائی سے شادی کی یا گھر بنایا وہ کامیاب کہلاتا ہے، کشمیریوں کی غالب اکثریت وسائل کی کمی کے باعث اس کامیابی سے دور رہتی ہے، یہاں کے لوگ 'گھر' سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں، نیلم میں امن کے دوران متعدد نئے گھر بنائے گئے، جن کے مالکان کی نیندیں حالیہ فائرنگ کے باعث اُڑ چکی ہیں۔

خواجہ صدیق نگدر میں رہتے ہیں اور سرکاری ملازم ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ 'نیلم میں تعمیر وترقی ہوئی، سرکاری عمارتیں بنائی گئیں اور گھر تعمیر ہوئے، لیکن ہم پریشانی میں مبتلا ہیں کہ اگر فائرنگ ہوئی تو نجی املاک کے ساتھ ساتھ سرکاری عمارتیں بھی ختم ہو جائیں گی، ہمیں امن کی ضرورت ہے، ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے قربانی بھی دینا چاہتے ہیں، لیکن دے نہیں پا رہے۔'

یہ بھی پڑھیں:کشمیر کی التجا: ہماری آنکھیں ہم سے مت چھینیں

کیرن اٹھمقام اور چلہانہ سیکٹر کے ہزاروں افراد براہ راست بھارتی فائرنگ کی زَد میں ہیں، یہاں کے ایک مقامی اسکول میں جونیئر ٹیچر ریاست علی کا کہنا تھا، 'فائرنگ کے دوران تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں، پہلے ہی ہزاروں نوجوان تعلیم وتربیت سے محروم ہیں اور اس وقت بے شک اسکول کھلے ہوئے ہیں، لیکن خوف کی وجہ سے بچے یکسوئی سے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے، ہم امن قائم رکھنے کی صلاحیت اور اختیار نہیں رکھتے مگر دعائیں ضرور کررہے ہیں کہ امن بحال رہے۔'

اٹھمقام میں چھٹی کے روز موجود واحد انتظامی آفیسر سید شوکت علی گیلانی کا کہنا تھا کہ 'حالات پرامن ہیں اور ہم نے حکومت سے مورچے قائم کرنے کے لیے فنڈز کی فراہمی کی اپیل کی ہے'۔

یوں تو وادی نیلم میں زندگی رواں دواں ہے مگر ہر شخص خوف زدہ ہونے کے ساتھ امن کا بھی متلاشی ہے، بھارتی فائرنگ اگر شروع ہوتی ہے تو لائن آف کنٹرول سے متصل علاقوں میں انسانی المیہ جنم لے گا۔

دوسری جانب آزاد کشمیر حکومت 22 ارب روپے کے خسارے میں ہے، اگر نیلم سے ہجرت ہوئی تو ریاستی ادارے چند درجن خاندانوں کو بھی سنبھالنے کے قابل نہیں، یہ ہزاروں لوگ کہاں جائیں گے؟

جنگ سے جہاں سماجی اقدار متاثر ہوں گی وہیں غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا، نیلم سمیت پہاڑی علاقوں میں رہنے والے ہزاروں خاندان دو وقت کی روٹی مشکل سے حاصل کرپاتے ہیں، جنگ اُنہیں تباہ کر دے گی۔

نیلم کا ہر شخص امن چاہتا ہے مگر اُسے نہیں معلوم کہ امن کیسے قائم رہ سکے گا، نیلم کے باسی مسئلہ کشمیر کو اپنے مصائب وآلام کا سبب قرار دینے کے باوجود اعلان لاتعلقی بھی نہیں کر پاتے۔

تعلیم، صحت اور روز گار کی سہولیات سے محروم ایل او سی کے باسیوں کے لیے جنگ ایک ڈراؤنا خواب ہے جس سے بچنے کے لیے انھوں نے دست دعا بلند کر رکھے ہیں، تاہم لاکھوں افراد کو اس غیر یقینی اور اذیت کی صورتحال سے نکالنے کے لیے مسئلہ کشمیر کا پرامن حل نا گزیر ہے۔

عالمی طاقتیں اور پاک وہند مل کر اس تنازع کا حتمی حل تلاش کر لیں تو کشمیریوں کا تحفظ اور پاک-بھارت خوشحالی ممکن ہے، اگر ایسا نہ ہو سکا تو ایک اور نسل جنگی جنون کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں