لیاری کا سر فخر سے بلند کرنے والی ماں بیٹی

06 اکتوبر 2016
لیاری سے تعلق رکھنے والی رضیہ اور ان کی ماں حلیمہ باکسنگ رنگ میں ٹریننگ کرتے ہوئے۔ فوٹو فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
لیاری سے تعلق رکھنے والی رضیہ اور ان کی ماں حلیمہ باکسنگ رنگ میں ٹریننگ کرتے ہوئے۔ فوٹو فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

عظیم امریکی باکسر محمد علی کلے کے انتقال کے چند دن بعد پاک شاہین باکسنگ کلب کے یونس قمبرانی کو ایک دلچسپ فون کال موصول ہوئی۔

رضیہ عبدالعزیز نامی نوجوان لڑکی نے انٹرنیٹ سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اب وہ جاننا چاہتی ہیں کہ کیا یونس قمبرانی ان کے ہی کلب میں تربیت حاصل کرنے والی دس لڑکیوں کیخلاف میدان میں اترنے کیلئے ان کی تربیت کرنے کیلئے تیار ہیں۔

یونس قمبرانی 1994 سے لیاری کے نوجوانوں کو باکسنگ سکھا رہے ہیں اور گزشتہ سال لڑکیوں کو باکسنگ سکھانا شروع کی۔

رضیہ کو انتہائی محنتی اور پرعزم باکسر قرار دیتے ہوئے یونس نے بتایا کہ جب لڑکی نے کال کی تو وہ فیس کے حوالے سے پریشان تھی لیکن میں نے اسے بتایا کہ میں لڑکیوں کی تربیت مفت میں کرتا ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ رضیہ ہفتے کے ساتوں دن اک گھنٹے سے زیادہ تربیت کرتی ہے اور چند ماہ میں ہی اس نے انتہائی تیزی سے پیشرفت کی ہے۔

19 سالہ رضیہ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیشہ ورانہ باکسر بن کر اولمپکس میں ملک کی نمائندگی کرنا ان کا خواب ہے۔

'میں صرف اولمپکس میں شرکت نہیں کرنا چاہتی، میں گولڈ میڈل جیتنا چاہتی ہوں'۔

رضیہ نے انکشاف کیا کہ ہاؤس آف ماڈرن انگلش میں ان کی انگریزی کی ٹیچر سے متاثر ہو کر انہوں نے باکسر بننے کا فیصلہ کیا۔

'میری ٹیچر بہترین باکسر ہیں اور عمدہ استاد ہیں، انہوں نے واقعی مجھے بہت متاثر کیا'۔

'مجھے ہمیشی ہی کھیلوں سے بہت دلچسپی رہی ہے لیکن اس میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا۔ جب میں نے کالج میں کرکٹ کھیلنے کی کوشش کی تو یہ لوگوں کو کچھ عجیب لگا'۔

'اس کلب میں ٹریننگ اور باکسنگ کرنا میرے لیے ایک بہترین موقع ہے اور میں اسے ضائع نہیں کروں گی۔ میں ٹریننگ کرتے ہوئے بہترین کارکردگی دکھاؤں گی'۔

تقریباً ایک ماہ قبل رضیہ کی والدہ نے بھی اس کلب میں انہیں جوائن کر لیا ۔۔۔ ایک ایسا کام جو لیاری کے گرد و نواح میں رہائش پذیر کسی بھی خاتون کو کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ 'میری بیٹی نے چند ماہ قبل کلب میں ٹریننگ شروع کی اور گزشتہ ماہ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے بھی اس میں قسمت آزمائی کرنی چاہیے۔

'ایک دن رضیہ میرے پاس آئی اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں باکسنگ سیکھنا چاہتی ہوں، میں نے کہا کہ اگر تم ایسا ہی چاہتی ہو تو پھر کرتے ہیں۔

'جب میں نے کلب جوائن کیا تو میں صرف جسمانی فٹنس کیلئے ایسا کرنا چاہتی تھی۔ میں نے سوچا مجھے یہاں جسمانی ٹریننگ کیلئے یہاں آںا چاہیے لیکن کوچ کی جانب سے حوصلہ افزائی کے بعد میں نے یہ کھیل سیکھنے کا فیصلہ کیا'۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے حلیمہ نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ وہ رضیہ یا دوسری لڑکیوں جتنی تیز باکسنگ نہیں کرتیں اور نہ ہی اس تیزی سے سیکھ سکتی ہیں۔

'میں نے آہستہ آہستہ سیکھنا شروع کیا اور جتنا وقت دے سکتی تھی، اتنا وقت دیا۔ حالانکہ میں نے کبھی بھی پیشہ ورانہ باکسر بننے کا فیصلہ نہیں کیا لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں ریفری بنوں گی'۔

انہوں نے بتایا کہ رضیہ کے والد باکسنگ کے شیدائی تھے اور محمد علی کلے ان کے سب سے پسندیدہ کھلاڑی تھے۔ جب وہ زندہ تھے تو ہم باکسنگ میچز یا دیگر کھیل ساتھ مل کر دیکھا کرتے تھے۔

ماں اور بیٹی کو کھیل کے تمام تر گر سکھانے کیلئے کوچ ان کی ایک دوسرے سے فائٹ کراتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ابتدا میں یہ مشکل تھا لیکن پھر ہم نے اپندازہ لگایا کہ اگر ہم ایک دوسرے پنچ نہیں ماریں گے یا نقصان نہیں پہنچائیں گے تو کوئی اور پہنچائے گا اور یہ کھیل کا حصہ ہے۔

اپنی بیٹی کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حلیمہ نے بتایا کہ وہ محسوس کرتی ہیں کہ باکسنگ ان دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے۔

'اس روزہ مرہ کا معمول بہت طے شدہ ہے ۔۔۔۔۔ یہ فجر میں اٹھتی ہے، کچھ کھا کر کام پر چلی جاتی ہے، پھر ٹریننگ کیلئے آتی ہے، پھر پڑھائی کیلئے کوچنگ سینٹر جاتی ہے۔ بالآخر رات آٹھ بجے گھر آتی ہے اور نماز پڑھنے کے بعد کھانا کھا کر سو جاتی ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ کیونکہ ہم نے باکسنگ ساتھ شروع کی ہے تو اسی لیے ہم ٹریننگ نہیں چھوڑتے اور سونے سے قبل باکسنگ کے بارے میں تھوڑی بہت بات ضرور کرتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں