’مودی کو بلوچستان نہ نواز شریف کو کشمیر میں دلچسپی ہے‘

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2016
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کراچی پریس کلب میں خطاب کررہے ہیں—فوٹو / آن لائن
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کراچی پریس کلب میں خطاب کررہے ہیں—فوٹو / آن لائن

کراچی: بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی ، ایم) کے سربراہ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ نہ مودی کو بلوچستان اور نہ ہی نواز شریف کو کشمیر میں کوئی دلچسپی ہے اور یہ دونوں رہنما اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ان مقامات کا ذکر کرتے ہیں۔

کراچی پریس کلب میں منعقدہ پروگرام ’میٹ دا پریس‘ سے خطاب کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بلوچستان کے حوالے سے حالیہ بیانات کھوکھلے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’مودی کو بلوچستان اور یہاں کے عوام میں کوئی دلچسپی نہیں، ان کے بیانات محض باتیں ہی ہیں، اسی طرح وزیراعظم نواز شریف کو بھی کشمیر یا کشمیریوں میں دلچسپی نہیں، دونوں ملکوں کے سربراہ لاشوں پر سیاست کررہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان،گلگت اورآزاد کشمیر کے لوگوں نے ہماراشکریہ ادا کیا، مودی

اختر مینگل نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ کشمیر بلوچستان سے زیادہ اسلام آباد کے قریب ہے کیوں کہ ہمارے رہنما اور میڈیا کشمیریوں کے رنج و غم کو سنتے بھی ہیں اور فوری طور پر رد عمل بھی ظاہر کرتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بلوچستان میں ہندوستانی مداخلت ہے تو تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس کا مقابلہ کریں، اپنے ہی لوگوں کو قتل کرکے بھارت کو جواز کیوں دیا جارہا ہے۔

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان سیاسی طور پر تنہا اور یتیم صوبہ ہے، آپ نے ہمیں تنہا رکھا اور اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ملک بھی تنہائی کا شکار ہورہا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے والد اور میں حکومت میں اپنی مدت اس لیے پوری نہیں کرسکے کیوں کہ ہم درباری اور خوشامدی نہیں تھے‘۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ دیگر راستے اپنانے کے بجائے پارلیمانی سیاست کی حمایت کی، آل پارٹیز کانفرنس میں بلوچستان کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال اور آباد کاروں کے قتل کے معاملے پر توجہ دی جائے، طاقت کا استعمال دونوں جانب نقصان دہ ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے 2012 میں سپریم کورٹ میں 6 نکات اٹھائے تھے اور اگر ان نکات کو تسلیم کرکے ان پر عمل کیا گیا ہوتا تو ہمیں صوبے کے عوام میں نا امیدی اور ریاستی اداروں اور حکمراںوں کے لیے بد اعتمادی نہ دیکھنی پڑتی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتے، امریکا

اختر مینگل نے کہا کہ ان نکات کا محور بلوچستان کے عوام کے لیے حق خود ارادیت تھا اور انہیں مسترد کیے جانے سے صوبے میں یہ تاثر عام ہوگیا کہ ریاست کو صرف صوبے کے وسائل سے سروکار ہے اور یہاں کے لوگوں کی تکلیف کا احساس نہیں۔

اختر مینگل نے کہا بلوچستان میں اب بھی وہی شکایتیں موجود ہیں؛ ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈز کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کو روکا جائے، مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور آنے والے پروجیکٹس میں مقامی افراد کو روزگار دیا جائے۔

بظاہر پاک چین اقتصادی راہداری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ ’یورپی، امریکی یا ایشیائی ملک کی جانب سے شروع کیا جانے والا کوئی بھی پروجیکٹ جو ہمارے لوگوں کو روزگار مہیا کرے ہمارے لیے قابل قبول ہے‘۔

’اسی طرح کوئی ایسا پروجیکٹ جو ہمیں ہمارے حقوق سے مزید محروم کرے اور ہمیں ہمارے صوبے میں ہی اقلیت بنادے ہمارے لیے قابل قبول نہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک بھی کالا باغ ڈیم بن جائے گا، اختر مینگل

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ گوادر میں سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کراچی ایڈورٹائزنگ اسپاٹ بن گیا ہے جبکہ گوادر کے پاس سوائے خوب صورت تصاویر کے دینے کے لیے اور کچھ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1990 سے گوادر اپنی نصف سے زیادہ بجلی ایران سے حاصل کررہا ہے اور ایران نے حال ہی میں دیگر اضلاع کو بھی سستی بجلی فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی جسے پاکستان نے مسترد کردیا۔

انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ صوبے میں اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبے شروع ہونے والے ہیں جن میں ہستپال، ایکسپریس وے اور گوادر میں ایک بین الاقوامی ایئرپورٹ شامل ہے۔

کوئٹہ کے سول ہسپتال میں 8 اگست کو ہونے والے خود کش دھماکے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ 25 وکلاء زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوئے کیوں کہ کوئٹہ میں موجود ہستپال میں سہولتیں موجود نہیں تھیں۔

آخر میں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ صوبے کے مسائل اجاگر کرنے پر ان پر غداری کا الزام لگا اور انہیں غدار کہا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا بھی بلوچستان کا صرف ایک رخ پیش کرتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس صوبے کی پرانی ریکارڈنگ موجود ہیں اور وہ ان ہی مخصوص مناظر کو اپنے تجزیوں اور ٹاک شوز میں دکھاکر خوش ہیں کیوں کہ یہ ان کے لیے فائدہ مند ہے۔

یہ خبر 10 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں