پکوان کہانی: بن کباب

16 اکتوبر 2016
بن کباب ایک روایتی کھانا ہے اور اسی لیے شہر میں ان منہ میں پانی لانے والے ذائقہ دار بن کباب کی کہیں کوئی کمی نہیں ہے۔ — فوٹو بسمہ ترمذی
بن کباب ایک روایتی کھانا ہے اور اسی لیے شہر میں ان منہ میں پانی لانے والے ذائقہ دار بن کباب کی کہیں کوئی کمی نہیں ہے۔ — فوٹو بسمہ ترمذی

کوئی آخر کس طرح بن کباب کا ذائقہ لفظوں میں بتا سکتا ہے؟

آپ کو اس کی خوشبو محسوس کرنی ہوتی ہے، چکھنا ہوتا ہے اور اس کی لذت کا بھرپور مزہ اٹھانا ہوتا ہے، پھر جا کر آپ حقیقی طور پر اس کا ذائقہ جان سکتے ہیں۔ ہاں، ایک بن کباب کا تجربہ کرنے کا واحد یہی ایک طریقہ ہے۔

بچپن میں میرے پسندیدہ بن کباب، کراچی کے علاقے نرسری میں واقع خیام سینما کے سامنے موجود ایک ریڑھے پر فروخت ہوتے تھے۔

ہر وہ شخص جو 70 اور 80 کی دہائی میں بڑا ہوا ہے، اس نے ضرور مشہور و معروف چنا شامی کباب کھائے ہوں گے جس میں انڈا، چٹنی، ٹماٹر اور پیاز شامل ہوتے، جو خیام سینما کے چوک پر پان کی دکان کے سامنے ملباری کی دکان اور بلو ربن بیکری کے درمیان کونے پر کھڑے ٹھیلے پر فروخت کیے جاتے تھے۔

سنہرا براؤن، نرم، چٹنی سے بھرپور اور لذیذ بن کباب صرف ایک روپے 25 پیسے میں دستیاب ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے لیے ہر بار دو بن کباب لانے کا کہتی۔ اس کی لذت کا مزا اٹھانے یا ان خوبصورت برسوں میں اس پیٹو کے لیے ایک بن کباب کافی نہیں ہوتا تھا۔

شاید اسٹریٹ فوڈ کی دیوانگی ہی بچپن میں میرے موٹاپے کی وجہ رہی ہوگی۔ اور اگر ٹھیلے کے بن کباب سے پیٹ نہ بھرتا، تو میری نانی کے ہاتھوں سے بنے گھر کے بن کباب بھی تو تھے، اس لیے میں بچپن سے ہی سچ مچ انہیں کھاتے بڑی ہوئی ہوں۔

اور ہاں ان گھر کے بن کباب میں ہمیشہ ایک ورائٹی ہوتی، جیسے آلو کٹلیٹس کے بن کباب، شامی بن کباب اور چپلی کباب کے بن کباب ہوتے۔ ذائقے سے بھرپور پلیٹ پر دیسی ٹوئسٹ بھی ساتھ ہوتا۔

— فوٹو بسمہ ترمذی
— فوٹو بسمہ ترمذی

بن کباب کراچی کا ایک روایتی کھانا شمار ہوتا ہے اور اسی لیے شہر میں ان منہ میں پانی لانے والے ذائقہ دار بن کباب کی کہیں کوئی کمی نہیں ہے۔ سچ کہیں تو ایسا کوئی اسٹریٹ فوڈ نہیں جو ان کرارے بن کباب کا مقابلہ کر سکتا ہو۔

سولومن ایچ کاٹز اور ولیم وئیز ویور کی انسائیکلوپیڈیا آف فوڈ اینڈ کلچر میں سینڈوچ، جو ہیم برگر کا والد اور بن کباب کا دادا تصور کیا جاتا ہے، کے بارے میں مندرجہ بالا تحریر درج ہے:

"بریڈ میں بند جھٹ پٹ تیار ہونے والا کھانا، جسے سینڈوچ کہا جاتا ہے وہ جان مونٹیگ (1792 - 1718) کے نام سے منسوب ہے، جو سینڈوچ نامی شہر کے چوتھے نواب تھے اور برطانوی سیاست دان اور بدنام عیاش و جواری بھی. انہیں ایسے کھانے کا مؤجد کہا جاتا ہے جس سے جوئے کا کھیل متاثر نہ ہو اور کھیل کے دوران باآسانی کھایا جاسکے اور کھانا کھانے کے لیے کھیل کو چھوڑنا نہ پڑے۔

"درحقیقت مونٹیگ سینڈوچ کے موجد نہیں تھے؛ بلکہ مشرقی رومی ملکوں میں سیر و تفریح کے دوران انہوں نے دیکھا کہ یونانی اور ترک اپنے سینکے ہوئے پیٹا بریڈز، چھوٹے کینیپس اور سینڈوچز اپنے کھانے کی میزوں پر پیش کرتے تھے، اس لیے انہوں نے کھانے کی آسانی کے پیش نظر اس تصور کو نقل کر لیا۔

"تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ سینڈوچ کے نواب نے اس قسم کے کھانے کو برطانیہ کے اشرافیہ میں متعارف اور مشہور کروایا، اور اس طرح اس زمانے سے سینڈوچ کے ساتھ ان کا خطاب منسلک ہو گیا۔

"1760 کی دہائی میں انگلش میں سینڈوچز کے تحریری حوالے ظاہر ہونا شروع ہوئے مگر ان کے بارے میں تصور کیا جاتا تھا کہ زیادہ تر مرد حضرات رات دیر تک چلنے والی شراب کی محفلوں کے دوران یہ کھاتے ہیں۔ یہ تصور تب تک قائم رہا جب تک 18 ویں صدی کے آخر میں سینڈوچز کا رخ عام معاشرے کی طرف اس کھانے کے طور پر نہیں ہوا جو دیر رات کو ہونے والی رقص اور دیگر تقاریب میں پیش کیا جاتا تھا۔

"شارلیٹ میسن وہ پہلی انگریزی کُک بک لکھاری تھیں جنہوں نے پہلی بار سینڈوچ بنانے کی ترکیب فراہم کی۔ 19 ویں صدی کے دوران جب دوپہر کا کھانا دیر دیر سے کھایا جانے لگا، تو شام کی چائے کے ساتھ گرم ہلکی پھلکی چیزیں کھانے کی ضرورت ختم ہوتی گئی، اور اس کی جگہ ایسے پکوانوں نے لے لی جو بچی کچھی ٹھنڈی چیزوں سے تیار کیے جاتے تھے۔ ایسے اجزاء کے لیے سینڈوچ سب سے زیادہ موزوں ثابت ہوا۔

"اس لیے سینڈوچ شام کی دعوتوں، چائے، پکنک اور شراب خانوں کا ایک لازمی جزو بن گیا۔ ورکنگ کلاس کے لوگوں نے سینڈوچ کی بعد میں بننے والی صورت میں بڑی تعداد میں اپنی تخلیقات کو بھی شامل کر دیا (جیسے بن کباب)۔

"ریلوے کے ابتدائی سالوں کے دوران، سینڈوچز نے خود کو ایک بہترین فاسٹ فوڈ کے طور پر ثابت کیا، خاص طور پر اس وجہ یہ تھی کہ انہیں ریلوے اسٹیشن پر فروخت کیا جاسکتا تھا جہاں مسافر اسنیک خریدنے اترتے تھے۔ 19 ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کی شروعات میں سینڈوچز کامیابی کے ساتھ مقبول ہونے لگے، خاص طور پر شراب کے استعمال کے خلاف سماجی تحاریک کے ردعمل کے طور پر اس کی مقبولیت عام دکھائی دی۔ شراب خانے اور سیلونز گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی خاطر انہیں مشروبات کے ساتھ سینڈوچز مفت پیش کرتے تھے۔"

ایک انگلش سینڈوچ سے دیسی بن کباب کی شروعات اس وقت متوقع تھی جب سینڈوچز برصغیر کی سڑکوں پر آنا شروع ہوئے۔ مایو، چیز، مسٹرڈ کی جگہ دیسی چٹنی اور گوشت کی ٹکیوں کی جگہ شامی کباب اور انڈے (آملیٹ) نے لے لی۔

مجھے جب کبھی بھی یہ مزیدار اسٹریٹ فوڈ بنانا ہوتا ہے تو میں کہیں اور دیکھنے کے بجائے اپنی ترکیب ہی استعمال کرتی ہوں۔ اب یہ میرے کچن سے آپ کے کچن کا رخ کر رہی ہے۔

— فوٹو بسمہ ترمذی
— فوٹو بسمہ ترمذی

اجزا

8 شامی کباب (ترکیب یہاں ملاحظہ فرمائیں)

ایک بڑا، سلائس کیا گیا پیاز

ایک بڑا، سلائس کیا گیا ٹماٹر

8 بن

4 انڈہ آملیٹ

املی کی چٹنی

تیل اور مکھن

— فوٹو بسمہ ترمذی
— فوٹو بسمہ ترمذی

ترکیب

فرائنگ پین میں تیل گرم کر لیں۔

انڈوں میں حسبِ ذائقہ نمک شامل کر کے اچھی طرح پھینٹ لیجیے اور ایک گول آملیٹ بنا لیں۔

پیاز کو ایک منٹ تک تیز آنچ پر براؤن کر لیں اور ایک طرف رکھ دیجیے۔

بن کے چاروں طرف مکھن لگا دیں۔

بن کے اندر چٹنی پھیلا دیں، اس کے اوپر کباب رکھیں، ٹماٹر کا ایک ٹکڑا رکھیں، پیاز ڈالیں، اور اس کے اوپر آنڈہ آملیٹ رکھ دیں۔ پھر بن کا دوسرا حصہ رکھ دیں اور بن کو دونوں اطراف سے تیز آنچ پر پکائیں۔

بن کباب کو چٹنی اور کیچپ کے ساتھ پیش کریں۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

نجم حسن Oct 17, 2016 12:17pm
عمدہ مضمون...بچپن کی یادیں تازہ ھو گئیں.ھم بھی اسی عہد کی یادگار ھیں.