ینگون: میانمار کی ریاست راکھائین میں فوج سے 'جھڑپ' کے دوران 10 حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق میانمار فوج کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب گاؤں کیٹ ییو پین میں جاری فوجی آپریشن کے دوران متعدد افراد نے فوجی اہلکاروں پر حملہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے پاس بندوقین، لاٹھیاں اور چاقو تھے۔

فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 10 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا، 'جن کے پاس سے اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے'۔

خیال رہے کہ 9 اکتوبر کو بنگلہ دیش کی سرحد سے منسلک میانمار کی سرحدی چیک پوسٹ پر مسلح افراد کے حملے میں 9 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے، جس کے بعد میانمار کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: مسلح حملے میں میانمار پولیس کے 9 اہلکار ہلاک

اس موقع پر حملے کی ذمہ داری کسی بھی گروپ یا تنظیم نے قبول نہیں کی تھی تاہم میانمار کے حکام نے روہنگیا کی مسلم اقلیت کے مبینہ جنگجوؤں کی تنظیم روہنگیا سالیڈیرٹی آرگنائزیشن (آر ایس او) کو حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

یاد رہے کہ مذکورہ گروپ 1980 اور 1990 کی دہائی میں سرگرم تھا تاہم گذشتہ دو دہائیوں سے کسی نے بھی اس کا نام نہیں سنا۔

رواں سال مئی میں بنگلہ دیش سے متصل علاقے میں روہنگیا کے مہاجرین کیمپ کے قریب موجود ایک سیکیورٹی چیک پر حملہ کیا تھا، جس میں کیمپ کا بنگلہ دیشی کمانڈر ہلاک اور حملہ آور اس کا اسلحہ لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

واضح رہے کہ میانمار میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت ملک کی پانچ کروڑ تیس لاکھ کی آبادی میں سے 13 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کا شہری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ برما میں روہنگیا نسل کے لاکھوں مسلمانوں کو پچھلے کئی سال سے مقامی بدھ قبائل اور حکومت کی جانب سے وحشیانہ مظالم کا سامنا ہے، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان دوسرے ملکوں میں پناہ کی تلاش میں در بہ در کی ٹھوکیں کھا رہے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران میانمار کے ان مسلمانوں کے خلاف مظالم اور پرتشدد حملوں کی لہر میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں انہیں اپنا آبائی وطن سے نکلنا پڑا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں