جہانگیر ترین: تحریک انصاف کا مالدار آدمی

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2017
جہانگیر ترین کے خلاف پارٹی میں کئی بار آواز اٹھ چکی ہے— خاکہ آن عباس
جہانگیر ترین کے خلاف پارٹی میں کئی بار آواز اٹھ چکی ہے— خاکہ آن عباس

جہانگیر ترین کے لیے گذشتہ چند مہینے اچھے نہیں گزرے، رائیونڈ مارچ سے چند دن قبل ہی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے جنرل سیکریٹری پارٹی کی یوتھ ونگ سے ایک اندرونی تنازعے میں الجھ گئے، جس نے فوراً ہی کھلم کھلا لڑائی کا روپ دھار لیا۔

پارٹی عہدے سے ان کی برطرفی کا مطالبہ کرتے پوسٹرز راتوں رات شہروں میں آویزاں کر دیے گئے۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے ایڈیشنل جنرل سیکریٹری سیف اللہ نیازی نے مبینہ طور پر جہانگیر ترین سے اختلافات کی بناء پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

سب سے زیادہ پریشان کن واقعہ 25 ستمبر 2016 کو جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کا استعفیٰ دینا تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج کو 2015 کے پی ٹی آئی کے پارٹی انتخابات میں ہونے والی "بے قاعدگیوں" کی تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا تھا۔

الیکشن ٹریبونل اس نتیجے پر پہنچا کہ الیکشن میں "بے پناہ پیسہ" استعمال کیا گیا۔ وجیہہ الدین احمد نے عوامی سطح پر یہ انکشاف، کہ پارٹی انتخابات میں کئی اہم سیٹوں پر دھاندلی کی گئی، کرتے ہوئے جہانگیر ترین سمیت چند اہم رہنماؤں کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔

کچھ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے ممبران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "پارٹی کے اندر جہانگیر ترین کی زیرِ قیادت ایک گروپ" نے ٹریبونل کی رپورٹ جاری ہونے کی سخت مخالفت کی تھی۔

پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بھی جہانگیر ترین کی کھلم کھلا مخالفت کی ہے۔ انہوں نے لاہور میں پارٹی انتخابات کی مہم کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "کارکنوں کے نظریات پیسے کی طاقت کو شکست دے دیں گے۔"

پی ٹی آئی کے بانیان اور کور کمیٹی کے ممبران میں سے ایک حامد خان نے کہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی (ق) نہیں بننے دیں گے۔ یہ اشارہ واضح طور پر جہانگیر ترین کی جانب تھا جو کہ 2000 کی دہائی میں جب مشرف اقتدار میں تھے، تب پاکستان مسلم لیگ (ق) کا حصہ تھے۔

بعد میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے دونوں افراد کو مصافحہ کروایا اور شاہ محمود قریشی نے بعد میں اپنے بیان کی تردید کی۔ مگر نقصان تب تک ہوچکا تھا اور ایک کمزوری عیاں ہوچکی تھی۔


ان کے ناقدین، چاہے پارٹی سے اندر ہوں یا باہر، انہیں ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو اثر و رسوخ خرید سکتا ہے۔ کالا دھن سفید کرنے اور قرض دہندہ ہونے کے الزامات اب بھی ان پر موجود ہیں۔


جہانگیر ترین پاکستانی سیاست کے امیر ترین افراد میں سے ہیں جن کے پاس ہزاروں ایکڑ زرعی زمین، ملک کی سب سے بڑی شوگر ملز، اور ایک عدد ذاتی طیارہ بھی ہے، جس میں سفر کرنے پر عمران خان پر تنقید ہو چکی ہے۔ کوئی 1.18 ارب روپے کے اثاثے رکھنے والے جہانگیر ترین ایک متنازع شخصیت ہیں۔

انہوں نے رحیم یار خان میں اپنی پہلی شوگر مل اپنے سسر اور 70 اور 80 کی دہائی کی ایک نمایاں سیاسی شخصیت مخدوم حسن محمود سے وراثت میں پائی۔ جہانگیر ترین کے مخالفین کہتے ہیں کہ ان کے چینی کے کاروبار کو مشرف دور میں اس وقت بے پناہ فائدہ پہنچا جب وہ پانچ سال کے لیے وفاقی وزیر برائے صنعت تھے۔

انہوں نے رحیم یار خان کے ایک حلقے سے استعفیٰ دینے کے بعد 2011 کے اواخر میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ ان کا وژن عمران خان کے وژن سے مطابقت رکھتا ہے۔

انہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں ضلع لودھراں کی ایک نشست سے انتخاب لڑا۔ اس ضلعے میں وہ کاروبار، فلاحی سرگرمیوں اور ترقیاتی کاموں کی مد میں بے تحاشہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں، مگر انہیں شکست ہوئی۔ جب سپریم کورٹ نے بعد میں اس نشست کے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دے دیے، تو ضمنی انتخابات میں جہانگیر ترین نے اپنے حریف کو 35,000 ووٹس سے شکست دی۔

ان کے ناقدین، چاہے پارٹی سے اندر ہوں یا باہر، انہیں ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو اثر و رسوخ خرید سکتا ہے۔ کالا دھن سفید کرنے اور قرض دہندہ ہونے کے الزامات اب بھی ان پر موجود ہیں۔ اپریل 2016 میں انہوں نے برطانیہ میں اپنے بچوں کے نام پر آف شور کمپنی موجود ہونے کا اعتراف کیا۔ یہ انکشاف پی ٹی آئی کے لیے ایسے وقت میں ایک شدید دھچکے سے کم نہیں کہ جب عمران خان نواز شریف پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے آف شور اکاؤنٹس کی موجودگی تسلیم کریں۔

جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے حکومت مخالف ان مظاہروں اور جلسوں کی فنڈنگ کرتے ہیں جن میں عمران خان تبدیلی کا وعدہ کرتے ہیں، مرکزی دھارے کی سیاست پر تنقید کرتے ہیں، اور کرپشن کے خلاف بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ جہانگیر ترین ان جلسوں میں عمران خان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

پارٹی کے بالائی حلقوں میں ان کی موجودگی سے ایک خلیج واضح ہو جاتا ہے۔ پارٹی میں ایک طرف وہ دھڑا ہے جو پارٹی کے اصلی ایجنڈے یعنی کرپشن سے پاک پاکستان، اور ایک منصفانہ و شفاف نظام کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے پر زور دیتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب وہ دھڑا ہے جو پارٹی کی تمام تر توجہ الیکشن جیتنے کی جانب مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔

جہانگیر ترین اس دوسرے دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس گروپ میں جہانگیر ترین کے ساتھ شامل دیگر پی ٹی آئی رہنما مثلاً سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور اور لاہور کے علیم خان یہ دلیل دیتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات میں پارٹی کے پاس بااثر امیدوار نہ ہونا، اور الیکشن میں اتنی سرمایہ کاری نہ کرنا جتنا کہ اس کے حریفوں نے کی تھی، پارٹی کی ناکامی کی وجوہات ہیں۔

جس طرح عمران خان جہانگیر ترین کو پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کی ناراضی کے باوجود اپنے قریبی حلقے میں شامل کیے ہوئے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ جہانگیر ترین گروپ کو اگلے انتخابات میں انتخابی مہم کی قیادت کرنے دیں گے۔

یہ جہانگیر ترین کا سب سے بڑا سیاسی امتحان ہوگا جس میں ان کی جیت یقینی نہیں ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر ہیرالڈ میگزین کے اکتوبر 2016 کے شمارے میں شائع ہوا۔ مزید پڑھنے کے لیے ہیرالڈ کی سبسکرپشن حاصل کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں