اسلام آباد : پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کے اخراجات کی حد کے معاملے پر اختلافات کا شکار ہیں کیونکہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کی سفارش کے مطابق قومی اسمبلی کا امیدوار انتخابی مہم کے دوران 15 لاکھ روپے جب کہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار 10 لاکھ روپے سے زائد خرچ نہیں کر پائے گا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عوامی ایکٹ کی شق 49 (2) کے تحت انتخابی مہم کے اخراجات کی حد مقرر کرنے کی تجویز پیش کی ہے لیکن پارلیمانی کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش کردہ تجویز کو چوتھی مرتبہ مسترد کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی اخراجات

ڈان کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق انتخابی ضابطہ اخلاق کے مسودے پر سیاسی جماعتوں کے بحث کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے انتخابی مہم کے اخراجات میں مناسب اضافے کی تجویز پیش کی جب کہ عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کی جانب سے قومی اسمبلی کے امیدوار کے انتخابی اخراجات 25 لاکھ جب کہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے اخراجات 15 لاکھ تک بڑھانے کی تجویز دی۔

نیشنل پارٹی نے عوامی مسلم لیگ کے برعکس انتخابی مہم کے اخراجات کم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کے امیدوار کی انتخابہ مہم کے اخراجات 5 لاکھ اور صوبائی اسمبلی کی مہم کے اخراجات 2 لاکھ سے کم ہونے چاہیئے۔

عوامی نیشنل پارٹی کا موقف تھا کہ انتخاب لڑنے والے امیدوار کی طرح سیاسی پارٹیوں کے اخراجات کی بھی حدود ہونی چاہئیے جب کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے انتخابی مہم کے دوران امیدوار کی جانب سے ذاتی طور پر اخراجات بڑھانے کی حمایت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی مہم کے اخراجات کی نگرانی کی جائے۔

مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات کی فوری ضرورت

جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰن گروپ) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے بھی انتخابی مہم کے اخراجات کی الیکشن کمیشن کی جانب سے نگرانی کیے جانے کا مطالبہ کیا جب کہ جماعت اسلامی نے بھی الیکشن کمیشن سے انتخابی مہم کے اخراجات کی نگرانی سمیت انتخابی اصلاحات کی نگرانی کا بھی مطالبہ کیا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) نے انتخابی مہم کے دوران جلسے، جلوسوں، بینرز اور اشتہارات پر پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جلسے اور جلوسوں پر پابندی قانون کے خلاف ہوگی، مسلم لیگ (ن) نے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اور سندھ کے مقابلے بلوچستان کے حلقے بڑے اور پولنگ اسٹیشنز کافی دور ہوتے ہیں، اس لیے انتخاب لڑنے والا امیدوار ووٹرز کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرتا ہے اگر ٹرانسپورٹ کا انتظام الیکشن کمیشن کرے تو اس کے لیے باقائدہ طریقہ کار بنایا جائے۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) کا کہنا تھا کہ انتخابات سے قبل حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات وغیرہ کو روکنے کے لیے طریقہ کار بنا کر انتخابات سے قبل دھاندہلی کو روکنے کے لیے حکمت عملی بنائی جائے۔

الیکشن کمیشن کے سینیئر اہلکار کے مطابق سیاسی جماعتوں نے الکیشن کمیشن کی جانب سے بھجوائے گئے مسودہ کے مطابق عام انتخابات برائے 2018 کے لئے انتخابی ضابطہ اخلاق تیار کرلیا ہے، مگر اس پر اتفاق کے لئے صلاح و مشورے جاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مہنگی ترین انتخابی مہم کا اختتام

الیکشن کمیشن کے مطابق مسودہ پاکستان کی 16 بڑی سیاسی پارٹیوں کو بھجوایا گیا تھا، ضابطہ اخلاق کی تیاری کے سلسلے میں ہونے والے اجلاسوں میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے سربراہ نے شرکت نہیں کی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی اصلاحات کی تیاری سے متعلق تمام فریقین سے صلاح و مشورے جاری ہیں، تمام فریقین اور سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر ضابطہ اخلاق تیا ر کیا جائیگا۔

مجوزہ ضابطہ اخلاق کے مسودے کے مطابق انتخابی مہم کے دوران ہر طرح کی عوامی ریلیوں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اشتہارات دینے، بل بورڈ، بینرز، پوسٹرز اور جھنڈے لگانے سمیت وال چاکنگ کرنے، کار ریلیاں نکالنے اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی عائد ہوگی۔


یہ رپورٹ 10 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں