عمران فاروق قتل کیس:خالد شمیم کا اعترافی بیان جمع

10 نومبر 2016
ڈاکٹر عمران فاروق — فائل فوٹو / اے ایف پی
ڈاکٹر عمران فاروق — فائل فوٹو / اے ایف پی

عمران فاروق قتل کیس کے ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے خالد شمیم کے اعترافی بیان کے مطابق وہ یہ بیان کسی کے دباؤ میں نہیں دے رہا، جبکہ بیان کے ساتھ مجسٹریٹ کا تصدیقی سرٹیفیکیٹ بھی لگایا گیا ہے۔

بیان میں خالد شمیم نے کہا کہ ’میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں، 16 ستمبر کو کاشف نے معظم کے فون پر بتایا ماموں کی صبح ہوگئی اور کہا ٹی وی لگا کر تصدیق کرلی جائے، قتل کرنے کے بعد میں نے کاشف کو کہا جہاں کی فلائٹ ملتی ہے آج ہی نکل جاؤ جس پر محمد انور نے جنوبی افریقہ کے ساتھیوں کو کہا ہمیں پاکستان آنے سے روکا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’6 جنوری کو ہم نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور چمن کے راستے افغانستان پہنچے، 5 سال افغانستان میں رہنے کے بعد میں نے اور محسن نے ملک واپسی کا ارادہ کیا، تاہم کاشف نے انکار کرتے ہوئے کہا وہ الطاف حسین کی موت تک واپس نہیں جائے گا۔‘

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس:ملزم خالد شمیم کی درخواست ضمانت خارج

اعترافی بیان میں مزید کہا گیا کہ ’الطاف حسین نے افتخارر حسین کے ذریعے مجھے پیسے بھجوائے، افتخار حسین نے کراچی پہنچ کر 25 ہزار پاؤنڈ لفافے میں مجھے دیئے، مجھے بتایا گیا جس کام کی نشاندہی الطاف حسین نے کی اس کام کے پیسے ہیں، جبکہ افتخار حسین اور معظم کے پیسوں سے ویزا اخراجات پورے کیے گئے۔

گزشتہ ہفتے اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں ملوث ملزم خالد شمیم کی درخواست ضمانت خارج کردی تھی۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کا کوڈ 'ماموں کی صبح ہوگئی' تھا

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیر کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: دو ملزمان کا اعتراف جرم

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کا الطاف حسین کے خلاف مقدمہ

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں