اسلام آباد: ترک صدر رجب طیب اردگان کی پاکستان آمد کے موقع پر وزارت داخلہ نے پاک ترک اسکولز اور کالجز کے ترک عملے کو 20 نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

تعلیمی نیٹ ورک کی انتظامیہ نے اس اچانک اقدام پر خدشات کا اظہار کیا اور طالب علموں اور ان کے والدین کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ ٹیچرز اور اسٹاف کے معاملات میں کسی دوسرے ادارے کی مداخلت کے خلاف کھڑی ہے۔

وزارت داخلہ کے سینئر عہدے دار نے بتایا کہ اس تعلیمی نیٹ ورک کے عملے کے ویزے منسوخ کردیے گئے ہیں اور اتوار کے روز انہیں خطوط بھی بھیج دیے گئے ہیں جس میں انہیں مطلع کیا گیا ہے کہ ان کے پاس ملک چھوڑنے کے لیے صرف ایک ہفتے کا وقت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ وزارت خارجہ امور کی ہدایات کے عین مطابق ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک ترک اسکولز غیر یقینی صورتحال سے دوچار

عہدے دار نے بتایا کہ 28 پاک ترک اسکولز و کالجز میں ترک عملے کی تعداد 108 ہے جبکہ ان کے اہل خانہ کی تعداد 400 کے قریب ہے۔

یاد رہے کہ اگست کے مہینے میں پاکستان نے پاکستان کا دورہ کرنے والے ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاک ترک اسکولز کے معاملے پر غور کرے گا جسے ترکی نے امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن سے روابط کا الزام عائد کرکے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اپنے دورے کے دوران میلود چاووش اوغلو نے کہا تھا کہ ’یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گولن کی تنظیم پاکستان اور دیگر ممالک میں کئی اداروں کو چلارہی ہے، مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے جائیں گے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ان اداروں اور ان سے درپیش ہر اس ملک کے استحکام و سلامتی کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے جہاں یہ موجود ہیں‘۔

واضح رہے کہ پاک ترک اسکولز اور کالجز کے نیٹ ورک کا قیام 1995 میں اس غیر ملی این جی او کے تحت عمل میں آیا تھا جو ترکی میں رجسٹرڈ تھی۔

مزید پڑھیں: 'فتح اللہ' کے خلاف پاکستان کا تعاون حاصل: ترکی

اسکول کے سینیئر عہدے دار نے بتایا تھا کہ ابتداء میں پاکستان میں عالمی معیار کے کیمپس کے قیام کیلئے ترکی سے فنڈز آتے تھے لیکن گزشتہ 15 برس سے ادارہ اپنے اخراجات کیلئے فنڈز خود اکھٹے کررہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاک ترک اسکولز نیٹ ورک 35 فیصد طلبا کو مفت تعلیم اور قیام و طعام کی سہولت فراہم کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ذہین طالب علموں کو بیرون ملک تعلیم کیلئے اسکالر شپ بھی دی جاتی ہیں۔

28 اسکولز اور کالجز کا یہ نیٹ ورک لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان ، کراچی، حیدرآباد، خیرپور، جامشورو اور کوئٹہ میں پھیلا ہوا ہے جس میں 1500 ملازمین ہیں اور ان میں سے 150 ترک شہری ہیں، ان تعلیمی اداروں میں مونٹیسری سے اے لیول تک 11 ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔

اگست کے دوسرے ہفتے میں پاکستان میں پاک ترک اسکولز کی انتظامیہ نے 28 اسکولز اور کالجز کے ترک پرنسپلز کو عہدے سے ہٹادیا تھا جبکہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھی تحلیل کردیا گیا تھا جس میں ترک باشندوں کی بھی نمائندگی تھی۔

اس اقدام کو پاک ترک اسکول سسٹم کا کنٹرول کسی دوسری آرگنائزیشن کے حوالے کرنے کے حکومتی ارادے کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

وفاقی حکومت میں موجود ایک ذریعے نے بتایا کہ ترک حکومت نے تجویز دی تھی کہ ان اسکولوں کا انتظام ایک غیر ملکی این جی او کے سپرد کردیا جائے جس کے اردگان انتظامیہ کے ساتھ اچھے روابط ہیں۔

انتظامیہ نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس میں درخواستیں بھی دائر کررکھی ہیں جن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کو کسی بھی ایسے غیر قانونی اقدام سے روکے جس سے طالب علموں کا مستقبل خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہو۔

والدین کا بھی یہ کہنا ہے کہ انتظامیہ کی تبدیلی سے تعلیمی معیار بری طرح متاثر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاک ترک اسکولز کے انتظامی عہدوں میں تبدیلی'

گزشتہ ماہ وزارت خارجہ امور نے اسلام آباد کو آگاہ کیا تھا کہ حکومت ان اداروں کو بند کرنے نہیں جارہی اور نہ ہی اسے ترک حکومت کی جانب سے انتظامی کنٹرول کسی تیسرے فریق کے حوالے کرنے کی درخواست موصول ہوئی ہے۔

عدالت میں پٹیشن ان افواہوں کے سامنے آنے کے بعد دائر کی گئی تھی کہ مبینہ طور پر فتح اللہ گولن سے تعلق رکھنے والے پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے 28 تعلیمی اداروں کو صدر طیب اردگان کی حامی معارف فاؤنڈویشن کے زیر انتظام کردینا چاہیے۔

اپنے تحریری پیغام میں وزارت خارجہ امور نے کہا کہ ’پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کرنے کا مطالبہ کسی بھی حلقے کی جانب سے سامنے نہیں آیا‘۔

لاہور سے ڈان اخبار کے اسٹاف رپورٹر کے مطابق پاک ترک فاؤنڈیشن کی انتظامیہ کی جانب سے جاری بیان میں حکومت کے اس اچانک فیصلے پر خدشات کا اظہار کیا گیا جس کے تحت فاؤنڈیشن کے ترک ٹیچرز، انتظامی ارکان، ان کے اہل خانہ جن کی تعداد تقریباً 450 کے قریب ہے اور ان میں خواتین، شیر خوار اور اسکول جانے والے بچے بھی شامل ہیں، انہیں تین یوم کے اندر ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے کیوں کہ ان کے ویزوں میں توسیع کی درخواستیں منظور نہیں کی گئیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہم متعلقہ حکام سے رابطے میں ہیں اور صورتحال کا مستقل جائزہ لے رہے ہیں جبکہ حکومت پاکستان کے متعلقہ حکام کی اس یقین دہانی پر تکیہ کیے ہوئے ہیں جو انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریری طور پر جمع کرائی تھی کہ وہ پاکستان بھر میں پاک ترک اسکولز اور کالجز کے خلاف کوئی غیر موافق کارروائی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے‘۔

بیان میں کہا گیا کہ انتظامیہ اور غیر ملکی عملہ ویزوں کی عدم توسیع اور ملک بدری کے احکامات کو عدالت یا کسی اور موزوں فورم پر اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

یہ خبر 16 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (1) بند ہیں

ahmakadami Nov 16, 2016 08:49am
ridiculous movement to please a person who loves monocracy