احتساب کی ابتداء حاکم وقت سے ہونے میں مضائقہ نہیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ احتساب کی ابتداء حاکم وقت سے ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل حامد خان نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے رواں برس 5 اپریل اور 16 مئی کو کیے گئے خطاب کا متن پڑھ کر سنایا۔
حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر 3 بار خطاب کیا، عدالت ان تقاریر کا جائزہ لے۔
جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ دوسری طرف سے اعتراض نہ کرنے تک وزیر اعظم کے خطابات پر انحصار کیا جاسکتا ہے۔
اس موقع پر درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ یہ درخواست کرپشن کے خلاف نہیں بلکہ ایک مخصوص شخص کے خلاف ہے'۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'درخواست اس وقت حاکم وقت کے خلاف آئی ہے اور اگر ابتدا انہی سے کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں'۔
اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 'آپ ہمیں احتساب کی ابتدا تو کرنے دیں، کیا بینچ میں سے کسی نے کہا ہے کہ ایک کے بعد کسی کا احتساب نہیں ہوگا'۔
سماعت کے بعد چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس میں کہا کہ جب تک وزیراعظم پر الزامات کی 100 فیصد تصدیق نہ ہوجائے ہم فیصلہ نہیں دے سکتے، ان کا کہنا تھا، 'جب تک مکمل انکوائری نہ ہو جائے عدالت نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی'۔
بعدازاں کیس کی سماعت 30 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔
پی ٹی آئی کی دستاویزات غلط اور ناقابل قبول قرار
اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے پاناما کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی شواہد پر مبنی دستاویزات کو غلط اور ناقابل قبول قرار دیا۔
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا کہ عمران خان نے الزامات ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے، عمومی الزامات لگائے گئے ہیں جنہیں وہ پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
وزیراعظم نے اپنی درخواست میں سوال اٹھایا کہ درخواست گزار اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کن دستاویزات پر انحصار کر رہا ہے؟
گذشتہ سماعتیں
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔
سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر 2016 کو وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعدازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری
28 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ لارجر بینچ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔
یکم نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی تھی۔
مزید پڑھیں: آپ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی وکیل سے سوال
3 نومبر کی سماعت میں وزیر اعظم کی جانب سے ان کے وکیل نے جواب داخل کرایا جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی اپنے ٹی او آرز جمع کرائے تھے۔
عدالت نے وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی سرزنش کی تھی جبکہ جواب داخل کرنے کے لیے 7 نومبر تک کی مہلت دی تھی۔
بعد ازاں تحریک انصاف نے کمیشن کے حوالے سے سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے ٹی او آرز جمع کروائے جبکہ وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے بھی اپنا جواب اور ٹی او آرز عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا تھا۔
7 نومبر کی سماعت میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر نے جواب داخل کرائے تھے۔
یہاں پڑھیں: قطری شہزادے کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف: سپریم کورٹ
اس کے بعد چیف جسٹس نے تمام فریقین کو ہدایت کی تھی کہ وہ 15 نومبر تک دستاویزی شواہد پیش کریں جبکہ کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔
15 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران وزیراعظم اور ان کے بچوں کی جانب سے 400 صفحات سے زائد پر مشتمل دستاویزات عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئیں، جن میں وزیراعظم نواز شریف کے ٹیکس ادائیگی سمیت زمین اور فیکٹریوں سے متعلق تفصیلات اور زمینوں کے انتقال نامے بھی شامل تھے۔
عدالت میں قطر کے سابق وزیر خارجہ شہزادے حماد بن جاسم بن جبر الثانی کا تحریری بیان بھی پیش کیا گیا تھا۔











لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں