اسلام آباد: بندرگاہ پر رش اور پائپ لائن میں رکاوٹوں کی وجہ سے ملک میں تیل کی سپلائی میں خلل پیدا ہوگیا ہے جبکہ ذخیرہ کرنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے آئل کمپنیاں معیاری طریقہ کار سے ہٹ کر کام کرنے پر مجبور ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں دو اہم پٹرولیم مصنوعات موٹر پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی سطح لازمی اسٹریٹجک سطح سے نیچے چلی گئی ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملکی سرحدوں پر کشیدگی عروج پر ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع نے متعدد بار متعلقہ حلقوں کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا کہ اسٹریٹیجک ذخیرے کے لیے سپلائی میں اضافہ کیا جائے لیکن حکومت اور آئل انڈسٹری دونوں ہی وزارت دفاع سے درخواست کرتے رہے ہیں کہ وہ اضافی ذخیرہ خانوں کی تعمیر کے لیے درخواستوں کی کلیئرنس کی رفتار تیز کرے۔

6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کی مجموعی طور پر 51 درخواستیں جو ملک کے مختلف علاقوں میں اسٹوریج ڈپوز بنانا چاہتی ہیں، وزارت دفاع کے پاس زیر التواء ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرول بحران کی ذمہ داری اوگرا پر عائد

سابق سیکریٹری پٹرولیم نے ڈان کو بتایا کہ ’اگر تمام این او سیز آج ہی جاری کردیے جائیں تو بھی ذخیرے کی استعداد میں کمی کو پورا کرنے میں ایک سال کا عرصہ لگے گا، انرجی سیکیورٹی کے تناظر میں یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے‘۔

ایک حکومتی عہدے دار نے بتایا کہ وزارت پٹرولیم وزارت دفاع سے درخواست کرتی رہی ہے کہ مارکیٹنگ کمپنیوں کو نئے ذخیرہ خانے تعمیر کرنے کے لیے این او سی کے اجراء کے حوالے سے ایک وقتی میکینزم تیار کرلیا جائے۔

موجودہ صورتحال کا ذمہ دار طلب میں اضافے، ذخیرے کی گنجائش میں کمی اور پورٹ پر رش کو قرار دیا جارہا ہے۔

یہ معاملہ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل، آئل ریفائنریز اور او ایم سیز کے نمائندوں کے درمیان ہونے والی ماہانہ پراڈکٹ ریویو میٹنگ میں اٹھایا جاتا رہا ہے۔

حکومتی عہدے دار کا کہنا ہے کہ ’ملک بھر میں کہیں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قلت نہیں تاہم پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کم سے کم 20 دن کا ذخیرہ رکھنے کے لازمی شرط سے کم ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’پٹرول 2 لاکھ 57 ہزار ٹن جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل میں 3 لاکھ 15 ہزار ٹن قلت کا سامنا ہے‘۔

شکایتیں

حکومتی عہدے دار نے بتایا کہ وزارت پٹرولیم کے ڈائریکٹر جنرل آئل او ایم سیز سے درخواست کررہے تھے کہ کہ وہ اپنے انوینٹری لیول میں اضافہ کریں جبکہ پاک عرب ریفائنری (پارکو) کی ذیلی کمپنی پاک عرب پائپ لائن کمپنی (پیپکو) مسلسل یہ شکایتیں کررہی ہیں کہ او ایم سیز پائپ لائنز کا غلط استعمال کررہی ہیں اور پائپ میں ہی تیل ذخیرہ کررہی ہیں۔

پیپکو اور پارکو نے شکایت کی کہ ’وائٹ آئل پائپ لائن (ڈبلیو او پی) سسٹم چوک تھا اور او ایم سیز اسے بطور اسٹوریج سسٹم استعمال کررہی تھیں، ڈبلیو او پی سسٹم ترسیلی نظام ہے نہ کہ اسٹوریج سسٹم‘۔

مزید پڑھیں: توانائی بحران حکومت گرا سکتا ہے

پیپکو نے وضاحت کی کہ متوقع فروخت سے کہیں زیادہ مقدار میں تیل پائپ لائن میں داخل کردیا گیا اور او ایم سی کی جانب سے انہیں نکالا نہیں گیا۔

نتیجتاً حکام کے لیے مزید آنے والے بحری جہازوں کو ہموار طریقے سے لنگر انداز کرنے میں مشکلات پیش آنے لگیں۔

آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل ریفائنریز اور او ایم سیز کی جانب سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ پائپ لائن سسٹم میں موجود اسٹاک کا ریگولر ڈیٹا فراہم کیا جائے تاکہ رکن کمپنیوں کو کہا جاسکے کہ وہ اپنی مصنوعات کو جلد از جلد نکال لیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ، مثال کے طور پر پٹرول سے بھرے کم سے کم تین جہازوں کو جیٹی پر رش کی وجہ سے ستمبر 24/ ستمبر 29 کے شیڈول کے مطابق جگہ نہ مل سکی۔

جب ایک جہاز بندرگاہ پر آتا ہے تو اس کے مالک کو ایک نوٹس دینا پڑتا ہے جس میں دو تاریخیں درج ہوتی ہیں ، ان میں سے ایک تاریخ جہاز کے لوڈنگ پورٹ پر آنے اور دوسری لنگر اندازی کے لیے تیار ہونے کی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ ، 7 جہاز جن میں ہائی اسپیڈ ڈیزل تھا ، تبخیر اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران ہونے والے نقصان کی وجہ سے لنگر انداز نہ ہوسکے۔

اکتوبر کے مہینے میں 12 سے 15 جہاز پورٹ پر بے انتہا رش کی وجہ سے لنگر انداز ہونے کے لیے انتظار کررہے تھے۔

تاہم آئل کمپنیر ایڈوائزری کونسل کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر الیاس فاضل کا کہنا ہے کہ پورٹ اور پائپ لائن میں رکاوٹیں ’غیر معمولی نوعیت‘ کی نہیں تھیں ، یہ معمول واقعات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پورٹ پر بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی تاریخیں آگے پیچھے ہوسکتی ہیں اور دعویٰ کیا کہ وائٹ آئل پائپ لائن سے ترسیل کے لیے معیاری طریقہ کار پر عمل کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ڈیزل سے بھرا جہاز فوجی آئل ٹرمینل کمپنی میں لنگر انداز ہوا تو ڈبلیو او پی کی انتظامیہ سے مشاورت کی گئی تھی اور جگہ کی کمی کی وجہ سے پائپ لائن میں ڈیزل کے دخول میں ایک یا دو دن کی تاخیر ہوگئی تھی۔

اسٹریٹجک سطح سے کم ایندھن کے ذخائر کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل دونوں کی طلب عروج پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ذخیرے کی گنجائش میں اضافہ کرنا آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی ذمہ داری ہے تاہم پاکستان اسٹیٹ آئل اور ہیسکول نے حال ہی میں اپنی ذخیرے کی گنجائش میں اضافہ کیا ہے۔

یہ خبر 21 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں