اکتوبر 2015 میں لاہور کے حلقہ این اے 122 میں ہونے والے غیر معمولی ضمنی انتخابات کے دوران میں نے لاہور میں موجود میرے جاننے والے ’لبرلز‘ کی ٹوئیٹس کا جائزہ لینا شروع کیا جس میں وہ لوگوں پر گھروں سے نکل کر پاکستان مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے کے لیے زور دے رہے تھے۔

قریب ایک آدھ گھنٹے بعد میرے تین دوستوں نے جو کہ اسی حلقے کے رہائشی ہیں اور جنہوں نے 2008 میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا مگر 2013 میں کسی جماعت کو ووٹ نہیں دیا تھا، بھی برملا ٹوئیٹ میں اظہار کیا کہ وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ دے کر آئے ہیں۔

مسلم لیگ ن کا امیدوار اپنے مرکزی حریف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کے خلاف تھوڑے فرق کے ساتھ کامیاب ہوا۔ کافی ماہ بعد جب میرا کسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد جانا ہوا تب میرا رابطہ پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجیسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ)، جو کہ سیاسی اور پبلک پالیسی پر تحقیق کرنے والا ایک آزاد تھنک ٹینک ہے، کے ایک رکن سے ہوا۔

حالانکہ میری ان سے ملاقات کا مقصد اپنی دوسری کتاب پر جاری ریسرچ کے حوالے سے تھا، مگر این اے 122 کے ضمنی انتخابات کا موضوع نکل آیا اور میں نے ان سے اپنے مشاہدات کا تبادلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس بات سے حیران نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پلڈاٹ کے چند سرویز کے مطابق پنجاب میں بھاری تعداد میں پی پی پی ووٹر اب مسلم لیگ ن کا انتخاب کر رہے ہیں۔ 2013 کے عام انتخابات کے دوران کئی ’برہم‘ پی پی پی ووٹرز نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے مگر سال 2014 اور 2016 کے درمیان ہونے والے تقریباً تمام ضمنی انتخابات کے رجحانات دکھاتے ہیں کہ پی پی پی کے روایتی ووٹرز کی اکثریت مسلم لیگ ن کو ووٹ دے رہی ہے۔

چند دن قبل میری ملاقات میرے ایک لاہوری دوست سے ہوئی، جس نے 2008 میں پی پی پی کو ووٹ دیا تھا مگر این اے 122 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا۔ وہ بھی اس مشاہدے سے متفق ہے۔

وہ خود کو بڑے فخر کے ساتھ ’نڈر لبرل‘ بتاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ پنجاب میں ترقی پسند شہری نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اب مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے پر رضامند ہے۔

پلڈاٹ کے نمائندے اس معاملے کو پنجاب کے شہری متوسط طبقے کے اکثریتی لبرل حلقے کی جانب سے ’اسٹریٹجک ووٹنگ‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں جو پی ٹی آئی کی عوامیت پسندی کو مشکوک نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ پنجاب، جہاں پی پی پی کا ووٹ بینک تیزی سے کم ہو رہا ہے، میں پی پی پی کو ووٹ دینے سے ان کے ووٹ ضائع ہو جائیں گے۔

پلڈاٹ کے نمائندے مانتے ہیں کہ پنجاب کے شہری متوسط طبقے اور پنجاب کے لبرل اور ترقی پسند طبقات کا مسلم لیگ ن کو ووٹ دینا ایک دلچسپ پیش رفت ہے۔

ان کے مطابق محققین کو اس رجحان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور یہ کہ مسلم لیگ ن بھی اس بات سے آگاہ ہوئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس آگاہی کی ایک بڑی وجہ یہ ’حقیقت‘ ہے کہ اگر یہ طبقہ این اے 122 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں باہر نہ نکلتا اور مسلم لیگ ن کو ووٹ نہ دیتا تو مسلم لیگ ن کا امیدوار کامیاب نہیں ہو پاتا۔

پی ٹی آئی کے امیدوار کو 2,443 ووٹوں کے فرق کے ساتھ شکست ہوئی اور پلڈاٹ کے نمائندے ایسا مانتے ہیں کہ اس حلقے کے ’لبرل‘ طبقے کے ووٹوں کی مدد سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو اس کانٹے دار مقابلے میں ذرا سے فرق کے ساتھ جیت نصیب ہوئی۔

میرے لاہوری دوست مانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اپنا رخ (دائیں بازو سے) ’نہایت اعتدال پسندی‘ کی طرف ایسے وقت میں موڑ رہی ہے جب ’بائیں بازو کی لبرل‘ پی پی پی اپنے نظریے کو پالیسی میں بدلنے میں ناکام ہو رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی "زیادہ سے زیادہ عوامیت پسند دائیں بازو کی جماعت' کے طور پر دکھائی دیتی ہے۔

بہرحال یہ ان کا اپنا مؤقف ہے۔ لیکن اگر ہم مسلم لیگ ن کے نظریاتی ارتقاء پر نظر ڈالیں تو اوپر بیان کردہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے۔

1993 میں میاں نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ سے الگ ہو کر اپنا الگ دھڑا تشکیل دیا۔ جس لیگ کا وہ حصہ تھے، اس کا قیام 1985 میں ہوا تھا جب جنرل ضیا کی آمریت نے مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کے یکجا ہونے اور ایک متحدہ لیگ تشکیل دینے پر زور دیا تھا۔

یہ دھڑے اس وقت سے موجود تھے جب 50 کی دہائی کے وسط میں بانیءِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ تقسیم ہونا شروع ہوئی تھیں۔ مسلم لیگ حقیقت میں ایک جدت اور اعتدال پسند جماعت تھی مگر 1985 میں جب اس جماعت کو ایک بار پھر متحد کیا گیا تب یہ ایک قدامت پسند تنظیم بن گئی جو ضیا آمریت سے قربت رکھتی تھی۔

1988 میں یہ دائیں بازو کے بین الجماعت اتحاد، اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی رکن تھی۔ آئی جے آئی 1990 کے انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف وزیر اعظم بنے۔ مگر مسلم لیگ ایک بار پھر مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور مسلم لیگ ن ان میں سے سب سے بڑا دھڑا بنا۔ مسلم لیگ ن نے 1985 کی مسلم لیگ کی سماجی و سیاسی قدامت پسندانہ روش اختیار کی لیکن اقتصادی آزادی پر بہت زور دیا گیا۔

1999 میں مسلم لیگ ن کی دوسری حکومت فوجی بغاوت میں ختم کیے جانے اور نواز شریف کو جلاوطن کرنے کے بعد پارٹی آہستہ آہستہ اپنی سماجی و سیاسی قدامت پسندانہ روش سے دور ہونا شروع ہوئی جو کہ اس نے 1990 کی دہائی میں اختیار کی تھی۔

پارٹی زیادہ سے زیادہ اعتدال پسندی کی جانب گامزن ہونا شروع ہوئی مگر بڑے پیمانے پر اقتصادی آزادی کی اب بھی حمایت جاری رکھی۔ یہاں تک کہ پارٹی کا ماننا تھا کہ ماضی میں پارٹی جس قدامت پسند روش پر قائم تھی، اس پر قائم رہتے ہوئے زیادہ تر اقتصادی منصوبوں (جن میں غیر ملکی سرمایہ کاری مطلوب تھی) کی تکمیل ممکن نہیں تھی۔

مسلم لیگ ن 2008 کے قومی انتخابات میں دوسرے نمبر رہی مگر پنجاب میں صوبائی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہی۔ قلیل مدت کے لیے یہ پی پی پی کی سربراہی میں بننے والی نئی مرکزی حکومت کی سرگرم اتحادی بنی مگر جلد ہی ساتھ چھوڑ کر حزبِ اختلاف کی بینچوں پر جا بیٹھی۔ پنجاب میں اپنی حکومت کے دوران پارٹی اپنے اقتصادی پروگرام کو واضح طور پر تشکیل دینے میں کامیاب رہی۔

2013 کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے فتح یاب ہونے کے بعد پارٹی نے خود کو ایک معتدل سماجی روپ دینے، اور اقتصادی آزادی اور ترقی کے لیے اپنی طرز کی پالیسیوں کو ترتیب دینے اور اس پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس لحاظ سے آج کی مسلم لیگ ن میں 1990 کی دہائی والی پارٹی جیسا کچھ نہیں ہے۔

پارٹی ایک اعتدال پسند تنظیم بننے کا پختہ عزم کر چکی ہے جو کہ مختلف مسائل پر اپنا رخ ایک فیصلہ کن نکتہ اعتدال کی جانب کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن نے پنجاب میں نچلے طبقے، تاجروں، تاجر برادریوں اور خیبر پختونخواہ میں ہندکو بولنے والے علاقوں میں موجود اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھا ہوا ہے۔

مگر ان سب کے ساتھ شہری پنجاب میں شاید اب ایک اضافی (اور ایک مکمل طور پر نیا) حلقہ وجود میں آ رہا ہے جو پی پی پی کو صوبے میں موجود کٹر قدامت پسند گروپس اور پی ٹی آئی کی انارکی مائل عوامیت پسندی کو باز رکھنے کے لیے انتہائی کمزور سمجھتا ہے۔

بلاشبہ یہ ایک انتہائی دلچسپ پیش رفت ہے۔

یہ مضمون 4 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں شایع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں