1983 میں روحیل حیات نے پہلی بار ایک طویل قامت، دبلے پتلے اور سیاہ بالوں ایک خوش شکل نوجوان کو دیکھا جو بعد میں ان کے بینڈ کے فرنٹ مین بن کر ابھرا۔

روحیل اور شاہی حسن اس وقت کئی بینڈز میں کام کا تجربہ کرچکے تھے اور وہ ایک گلوکار کی تلاش میں تھے۔

کسی نے انہیں کہا تھا وہ اس نئے لڑکے کو دیکھیں جو اسلام آباد میں پرفارم کرنے والا ہے، ان دونوں نے ایک دوست سے موٹر سائیکل لی اور راولپنڈی سے وفاقی دارالحکومت پہنچ گئے۔

روحیل یاد کرتے ہیں ' میرے خیال میں وہ پشاور سے آیا تھا، جنید اس وقت انجنیئرنگ کا طالبعلم نہیں تھا، وہ ایف سکس (اسلام آباد) میں لڑکیوں کے ایک کالج میں پرفارم کررہا تھا اور اس نے 'کیئر لیس ویشپر' گایا تھا'۔

روحیل حیات متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ' میں نے سوچا، واہ کیا آواز ہے، وہ ایک عجیب آوازتھی،جنید کی آواز ہائی رینج اور ہائی پچ جیسی تھی، ہم نے اس سے اس وقت بات نہیں کی'۔

روحیل بتاتے ہیں ' ہم صرف تماشائیوں کا حصہ تھے اور کسی نہ کسی طرح اختتام تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ہم موٹرسائیکلوں میں تھے، سرما کا موسم تھا اور ہم اندھیرا چھانے سے پہلے واپس بھی جانا تھا'۔

انہیں کچھ وقت لگا جب وہ دونوں ایک بار پھر جنید کو گلوکاری کا جوہر دکھاتے ہوئے دیکھ سکے، اس وقت جنید جمشید ایک انجنیئرنگ یونیورسٹی بینڈ کا حصہ تھے، جیسا روحیل حیات خود بتاتے ہیں ' اگلی بار میں نے جنید کو پنڈی کے فلیش مین ہوٹل میں ایک بینڈ نٹس اینڈ بولٹس میں دیکھا، نصرت (جو بعد ازاں وائٹل سائنز کے گٹارسٹ بنے) نے مجھے بتایا کہ وہ لڑکا پھر واپس آیا ہے، وہی نوجوان جسے تم نے پسند کیا تھا، چنانچہ ہمیں وہاں جاکر اسے دیکھنا چاہئے'۔

اس بار وہ فلیش مین ہوٹل میں کچھ جلدی پہنچنے میں کامیاب رہے اور آخری چار یا پانچ گانے سنے، اس بار انہوں نے آخرکار جنید جمشید سے رابطہ کیا اور اپنے پہلے بڑے کنسرٹ پر کام شروع کردیا، ایسا کنسرٹ جسے مس نہیں کیا جاسکتا تھا، یہ لاہور کے کینارڈ کالج میں ہوا۔

روحیل ہنستے ہوئے بتاتے ہیں ' یہ کسی فلم کے عجیب اسکرپٹ کی طرح تھا، جہاں نوجوان کسی بڑے مقصد کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں، کیونکہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے، اگر آپ کینارڈ کالج تک پہنچے تو کیا آپ کو ان افراد کی تعداد کا اندازہ ہوتا ہے جو سڑ جاتے تھے؟ آخر یہ نوجوان کس طرح اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟'

انہوں نے بتایا ' لڑکیوں اور ان کی گرل فرینڈز کے درمیان لڑائیاں ہوتی تھیں، لڑکیاں کہتیں ہم اس کنسرٹ میں جارہی ہیں، جبکہ لڑکے زور دیتے تم وائٹل سائنز کے کنسرٹ میں نہیں جاﺅ گی'۔

مگر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا، یہ تنازعہ صرف بحث و تکرار تک ہی محدود نہیں رہا، روحیل نے قہقہہ لگاتے ہوئے بتایا ' جب ہم کینارڈ میں پرفارم کرنے جاتے تو کالج کے باہر لڑکے ہمیں مارنے کے لیے انتظار کرتے تھے، جبکہ جنید کے یونیورسٹی کے دوست باہر ہمیں تحفظ دینے کے لیے کھڑے رہے، وہ واقعی ایک طرح کی دیوانگی تھی'۔

تو کیا وہ کبھی تشدد کا نشانہ بنے؟ روحیل کی زبانی جانیں ' نہیں، ہمارے ساتھ کبھی مار پیٹ نہیں ہوئی، مگر ایک کنسرٹ ایسا تھا جو کہ نیشنل اسٹیڈیم (کراچی) میں ہوا جہاں حالات کچھ خراب ہوئے'۔

یہ مضمون 18 دسمبر کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Muhammad kashif munir bhatti Dec 19, 2016 02:02am
Us waqt bhi rulya. After 20 years again, bhut hi rula dia, but in your memories Junaid Bhai.