• KHI: Clear 18.7°C
  • LHR: Cloudy 11.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.8°C
  • KHI: Clear 18.7°C
  • LHR: Cloudy 11.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.8°C

'بلوچستان میں جبری گمشدگی کے صرف 96 کیسز'

شائع December 20, 2016

اسلام آباد: جبری گمشدگیوں کے حوالے سے قائم انکوائری کمیشن کے چیئرمین ریٹائر جسٹس جاوید اقبال نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا ہے کہ صوبہ بلوچستان سے صرف 96 افراد لاپتہ ہیں جبکہ معاملے کو سیاسی رنگ دیا جارہا ہے۔

جسٹس جاوید اقبال کے اس دعوے نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اور کمیٹی کے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین کو حیران کردیا، جن میں میر اسرار اللہ خان زہری اور ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی شامل ہیں اور دونوں نے مذکورہ دعوؤں کو مسترد کردیا ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دونوں سینیٹرز کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بڑی تعداد میں شہری لاپتہ اور ہلاک کیے گئے جبکہ ایجنسیز نے ان کی لاشیں ضائع کی ہیں۔

دوسری جانب جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ 'کچھ سال قبل متعدد افراد نے کوئٹہ سے اسلام آباد مارچ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان میں 17000 افراد لاپتہ ہیں تاہم انھوں نے کبھی بھی مجھے ان کی فہرست فراہم نہیں کی۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے مسئلے پر حکومتی ناکامی کا اعتراف

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'بلوچستان کی ایک این جی او نے دعویٰ کیا تھا کہ 3500 افراد لاپتہ ہیں لیکن وہ بھی فہرست فراہم نہ کرسکے، ایک سابق وزیراعلیٰ نے تو یہاں تک کہا تھا کہ 900 بلوچ لاپتہ ہیں تاہم انھوں نے بھی مجھے فہرست فراہم نہیں کی'۔

جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ 'یہاں تک کہ ان 96 افراد کے بارے میں بھی حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ انھوں نے جنیوا، افغانستان یا کسی اور ملک کا سفر تو نہیں اختیار کیا، تاہم لاپتہ افراد کے حوالے سے مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے'۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جمالدینی کا کہنا تھا کہ جو حقائق کو چھپا رہے ہیں وہ نہ تو قوم کے ساتھ ہے اور نہ ہی ریاست کے ساتھ ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'ہر روز اخبارات لاپتہ افراد کی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں اور یومیہ دو سے 6 لاشیں بلوچستان سے مل رہی ہیں، میرے خاندان کے 7 افراد جبکہ میری پارٹی کے 87 کارکن ہلاک ہوئے ہیں، میرے پاس 1800 لاپتہ افراد کی فہرست موجود ہے'۔

ادھر بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے سینیٹر زہری کا کہنا تھا کہ 'لوگوں نے لاپتہ افراد کیلئے مقدمات درج کرانا بند کردیے ہیں کیونکہ دوسرے روز شکایت کرنے والا خود لاپتہ کردیا جاتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کا کیس درج کرنے سے پولیس کا انکار

انھوں نے دعویٰ کیا کہ 'اگر میں سچ بولنا شروع کردوں تو میرے ڈیتھ وارنٹ جاری ہوجائیں گے، یہاں تک کے مخصوص جماعتوں اور ان کے نمائندوں کو ووٹ نہ دینے پر لوگوں کو دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے یا پھر انھیں مار دیا جاتا ہے'۔

دریں اثنا کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رحمان ملک نے انڈین انٹیلی جنس حکام پر ایف سی اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو بلوچ عوام کے قتل میں ملوث ہونے جعلی الزام عائد کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی خفیہ ادارے صوبے میں سرگرم ہیں۔

پاکستان میں صورت حال بہت زیادہ خراب نہیں، جسٹس (ر) جاوید اقبال

اجلاس کے آغاز میں جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں صورت حال بہت زیادہ خراب نہیں اور ساتھ ہی این جی اوز پر الزام عائد کیا کہ 2012 میں انھوں نے منفی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کے جبری گمشدگی کے حوالے سے قائم ورکنگ گروپ کو مذکورہ مسئلے کو دیکھنا پڑا۔

انھوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے پاکستان کا دورہ کیا جبکہ ان کی تجاویز کو کچھ حد تک لاگو بھی کیا گیا۔

جسٹس اقبال کا کہنا تھا کہ انکوئری کمیشن نے اپنا کام جاری رکھا اور کمیشن پر بڑھنے والے اعتماد کے باعث جبری گمشدگیوں کے کیسز کی تعداد 136 سے بڑھ کر 3692 ہوگئی تھی۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کمیشن پندرہ افراد کا سراغ لگانے میں کامیاب

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ پولیس لاپتہ افراد کے حوالے سے مقدمات کا اندراج نہیں کرتی جس کے بعد ہم نے یہ یقینی بنایا کہ ہر کیس کی ایف آئی آر درج ہو۔

جسٹس جاوید اقبال نے بتایا کہ 'اسی دوران اسلام آباد میں بھی ایسے واقعات پیش آنے لگے جن میں لوگ گھروں میں داخل ہوجاتے تھے، ہم نے اسلام آباد پولیس سے تعلق رکھنے والے ریٹائر کیپٹن محمد الیاس کو اس معاملے میں شامل کیا، جس پر صورت حال بہتر ہوگئی'۔

صوبوں کی صورت حال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں 200 کے قریب مقدمات تعطل کا شکار ہیں لیکن وہاں کی حکومت مدد نہیں کررہی۔

انھوں نے بتایا کہ متعدد کیسز ایسے بھی ہیں کہ فرد کو اس کی شادی کے صرف دو ماہ بعد ہی لاپتہ کردیا گیا اور 6 سال گزر جانے کے بعد بھی اس کے بارے میں معلومات نہیں مل سکیں تاہم سندھ کے چیف سیکریٹری نے کبھی بھی اس حوالے سے کمیشن سے ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

انھوں نے کہا کہ صوبہ پنجاب میں لاپتہ افراد کے 223 کیسز ہیں لیکن جنوبی پنجاب کی صورت حال بہت بگڑی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جنھیں ایجنسیوں نے 18 ماہ کی حراست کے بعد صرف نام اور پتہ پوچھ کر گھروں کو واپس بھیج دیا'۔

جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ پنجاب کے ہوم سیکریٹری نے بھی کبھی کمیشن سے ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں کی جبکہ ایسے افسران کو کمیشن کے پاس بھیجا گیا جو کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے قاصر تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ بلوچ افراد: کوئٹہ سے کراچی لانگ مارچ کا آغاز

انھوں نے بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں لاپتہ افراد کے 654 کیسز تعطل کا شکار ہیں جن میں دہشت گردی کے مقدمات بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ فاٹا میں لاپتہ افراد کے 53، آزاد کشمیر میں 11 اور گلگت بلتستان سے 4 کیسز رپورٹ ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 368 لاپتہ افراد کی فہرست بھجوائی تھی جس میں سے بیشتر کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ فہرست میں سے 309 افراد کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی مدد سے تلاش کرلیا گیا کیونکہ وہ مختلف مقدمات میں مطلوب تھے۔

کمیشن کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے فنڈنگ اور تعاون میں کمی کے باوجود کمیشن نے گذشتہ 5 سال میں جبری گمشدگیوں کے 2416 کیسز کا فیصلہ کیا جبکہ دیگر 1276 کیسز کو بھی سنا گیا۔

اس موقع پر سینیٹر چوہدری تنویر نے سماجی رضا کار آمنہ مسعود جنجوعہ کے لاپتہ شوہر کے حوالے سے معلومات کے بارے میں سوالات کیے جس پر انھیں بتایا گیا کہ اگر وہ اس حوالے سے بریفنگ چاہتے ہیں تو وہ انھیں ان کیمرہ اجلاس میں دی جاسکتی ہے۔

یہ رپورٹ 20 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025