اسلام آباد: نیشنل پارٹی نے بلوچستان میں افغان مہاجرین کے انخلاء تک مردم شماری موخر کرنے کا مطالبہ کردیا۔

نیشنل پارٹی کے صدر اور وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ حاصل بزنجو نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ’شماریات ڈویژن نے اعلان کیا ہے کہ غیر ملکیوں کو مردم شماری میں شامل کیا جائے گا، ہمیں مردم شماری پر کوئی اعتراض نہیں لیکن افغانیوں کو اس میں شامل نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ملک میں اس وقت 30 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں جن کی موجودگی میں مردم شماری کروانا پاکستانیو کے حق پر ڈاکے کے مترادف ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے، پاکستان میں موجود غیر ملکیوں کو واپس بھیجا جائے اور افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع نہ کی جائے، جبکہ کل جماعتی کانفرنس میں بھی یہی فیصلہ ہوا تھا کہ غیر ملکی مہاجرین کو واپس بھیجا جائے۔‘

یہ بھی پڑھیں: مردم شماری کا آغاز اگلے برس 15 مارچ سے

حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں پختونوں کی نمائندہ صرف ایک جماعت نہیں ہے، جبکہ بلوچستان کے 4 اضلاع سے عوام کی بڑی تعداد نقل مکانی کر چکی ہے۔‘

انہوں نے سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کے لیے قائم کیے جانے والے کمیشن کی رپورٹ کی بھی حمایت کی۔

واضح رہے کہ چند روز قبل بیورو آف شماریات نے ملک میں مردم شماری کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔

گزٹ نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ملک میں چھٹی مردم شماری آئندہ سال مارچ اور اپریل کے ماہ میں 8 سال کی تاخیر کے بعد ہوگی۔

یہ نوٹیفکیشن سپریم کورٹ کی جانب سے مردم شماری کی تاخیر پر لیے جانے والے ازخود نوٹس کے بعد جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: مردم شماری: حکومت نے بالآخر نوٹیفکیشن جاری کردیا

بعد ازاں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے 15 مارچ 2017 سے پاکستان میں مردم شماری کے آغاز کا فیصلہ کیا۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق کونسل کے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ مردم شماری کا عمل صوبائی حکومتوں سے رابطے میں رہتے ہوئے کیا جائے گا اور سیکریٹری شماریات اور 4 مرکزی سیکریٹریز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی تاکہ مردم شماری کے عمل کے دوران پیش آنے والے چیلنجز کا سامنا کیا جاسکے۔

اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ گھرانوں کی تعداد اور مردم شماری کے عمل کو ایک ساتھ شروع کیا جائے جبکہ مردم شماری کے عمل کو دو مراحل میں مکمل کیا جائے۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے مردم شماری نہ کرانے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا جس میں پوچھا گیا تھا کہ کن وجوہات اور حالات کی وجہ سے حکومت نے مردم شماری موخر کی۔

یہ بھی پڑھیں: مردم شماری مارچ 2017 میں کروانے کا حکم

بعد ازاں یکم دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2 ماہ میں مردم شماری مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے حکومت سے کہا تھا کہ وہ تحریری طورپر یقین دہانی کرائے کہ مردم شماری 15 مارچ سے شروع ہوکر 15 مئی کو ختم ہوگی۔

یاد رہے کہ ملک میں مردم شماری کا عمل 2008 سے التواء کا شکار ہے، آخری بار ملکی آبادی کا اندازہ 1998 میں لگایا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں