کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اے ڈی خواجہ کو رخصت پر بھیجنے سے روک دیا۔

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں بینچ نے ایک این جی او کے سربراہ کرامت علی، سماجی کارکن اور گلوکار شہزاد رائے اور دیگر پانچ افراد کی جانب سے دائر کردہ پٹیشن پرسماعت کے دوران احکامات جاری کیے۔

عدالت نے آئی جی پولیس اور سندھ حکومت کو نوٹسز جاری کردیے اور انہیں اگلی سماعت میں اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت کردی جبکہ سماعت 12 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔

پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ پولیس میں بھرتیوں اور میرٹ کا نظام قائم کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت نے آئی جی پولیس کو 'رخصت' پر بھیج دیا

پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ آئی جی سندھ کو 19 دسمبر کو اس لیے 'جبری رخصت' پر بھیج دیا گیا کیوں کہ سندھ حکومت کے پولیس کانسٹیبلز کی بھرتیوں اور پولیس افسران کی معطلی کے معاملے پر ان سے اختلافات ہیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ 'یہ بات واضح ہے کہ اے ڈی خواجہ کے خلاف کیا جانے والا فیصلہ غیر منصفانہ، من مانہ اور گڈ گورننس اور انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے'۔

پٹیشن میں عدالت سے یہ درخواست کی گئی کہ سندھ حکومت کو آئی جی سندھ کو جبری رخصت پر بھیجنے، عہدے سے ہٹانے یا تبادلہ کرنے جیسے اقدامات سے روکے ماسوائے ان اقدامات کے جو پولیس آرڈر 2002 کے مطابق ہوں۔

قبل ازیں ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کئی معاملات پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے خوش نہیں ہے جس میں محکمہ پولیس میں 20 ہزار کانسٹیبلز کی بھرتیوں کا معاملہ بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایک سرکش پولیس افسر کو بھی برطرف کیا تھا لیکن بعد ازاں وہ بحال ہوگیا تھا لیکن اے ڈی خواجہ اسے اس کی مرضی کی پوسٹنگ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: آئی جی سندھ کو جبری رخصت پر بھیجنا 'بلاجواز'

آئی جی سندھ نے اندرون سندھ میں گنے کے کاشتکاروں کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ آئی جی سندھ نے حکمراں جماعت سے قریبی تعلقات رکھنے والے افراد کے کئی معاملات پر مطالبات کو بھی ماننے سے انکار کیا جنہیں وہ غیر قانونی سمجھتے تھے۔

لہٰذا دبئی میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی دبئی میں ہونے والی ملاقات میں انہیں جبری رخصت پر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔

تاہم وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا موقف ہے کہ آئی جی سندھ کو جبری رخصت پر نہیں بھیجا گیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے 15 یوم کی چھٹی پر گئے ہیں۔

اس سلسلے میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے ڈان کو بتایا تھا کہ 'میں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں چھٹی پر ہوں'۔

اے ڈی خواجہ کا سندھ حکومت سے جھگڑا

اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت کی جانب سے غلام حیدر جمالی کی برطرفی کے بعد رواں برس مارچ میں آئی جی سندھ کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔

9 ماہ عہدے پر رہنے کے دوران اے ڈی خواجہ نے پولیس کے محکمے کو بہتر بنانے کی حتیٰ الامکان کوشش کی۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ آہستہ آہستہ اے ڈی خواجہ حکمراں جماعت کی حمایت کھوتے گئے کیوں کہ انہوں نے مخصوص مطالبات کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کی رخصت: 'کسی بھی افسر کو بدلنا سندھ حکومت کااستحقاق ہے'

جب محکمہ پولیس میں نئی بھرتیوں کا اعلان کیا گیا تو اے ڈی خواجہ نے میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں فوج کی کور فائیو اور سٹیزنز پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے نمائندے بھی شامل تھے۔

اے ڈی خواجہ کے اس اقدام نے حکمراں جماعت کے ارکان کو ناراض کردیا جو ان بھرتیوں میں اپنا حصہ چاہتے تھے تاکہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ووٹرز کو خوش کرسکیں۔

ذرائع نے ڈان کو یہ بھی بتایا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ایس ایس پی راؤ انوار کے معاملے پر بھی اے ڈی خواجہ سے ناراض تھی۔

راؤ انوار کو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کی وجہ سے معطل کیا گیا تھا، بعد میں ان کی معطلی ختم کردی گئی تھی تاہم انہیں ایس ایس پی ملیر تعینات نہیں کیا گیا تھا حالانکہ طاقتور سیاسی عناصر چاہتے تھے کہ آئی جی سندھ راؤ انوار کو ان کی سابقہ پوسٹ پر بحال کریں۔

بعد ازاں ایک طاقتور شخص کا مطالبہ نہ ماننے پر اے ڈی خواجہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا، اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق شوگر مل مالکان کے طاقتور لابی سے ہے جو مبینہ طور پر اپنی ملز تک گنوں کی سپلائی کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کو غلط طریقے سے استعمال کررہا تھا اور آئی جی سندھ نے متعلقہ حکام کو اس عمل کو روکنے کی ہدایت دی تھی۔

اسی اثناء میں کراچی پولیس چیف مشتاق احمد مہر کو آئی جی سندھ کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا۔

سردار عبدالمجید ایڈیشنل آئی جی مقرر

سندھ حکومت کی جانب سے بدھ کے روز ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں پولیس سروس آف پاکستان کے افسر سردار عبدالمجید کو ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ریسرچ، ڈویلپمنٹ، انسپیکشن اینڈ انکوائریز اور کراچی کا چارج دے دیا گیا اور قائم مقام آئی جی مشتاق مہر کو اضافی چارجز سے سبکدوش کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں