اسلام آباد: 2013 میں ملک میں ہونے والے قومی اسمبلی کے 17 حلقوں میں 95 فیصد سے زائد رجسٹرڈ خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔

ڈان کو موصول ہونے والے الیکشن کمیشن آف پاکستان(ای سی پی) کے دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ان 17 حلقوں میں سے پانچ حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ ایک فیصد سے بھی کم رہا۔

متفرق ڈیٹا پر مبنی دستاویزات کے مطابق اپر دیر کے حلقہ این اے 33 میں ایک لاکھ 38 ہزار 910 ووٹروں میں صرف ایک خاتون نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جب کہ اس سے ملحقہ حلقے این اے 34 لوئر دیر میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آئوٹ 0 اعشاریہ 11 فیصد رہا، جہاں 2 لاکھ 6 ہزار 566 ووٹروں میں سے صرف 234 ووٹرز خواتین تھیں۔

این اے37 کرم ایجنسی میں ایک لاکھ 56 ہزار811 ووٹرز میں سے صرف 459 ووٹرز خواتین تھیں اور اس حلقے میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 0 اعشاریہ 29 فیصد رہا، شورش زدہ علاقے خیبر ایجنسی کے حلقے این اے 34 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 0 اعشاریہ 02 فیصد رہا جب کہ خیبر ایجنسی کے این اے 46 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 0 اعشاریہ 2 فیصد تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین ووٹرز کو کیا چاہئیے

شورش زدہ علاقوں کی روایات اور وہاں کی بدامنی کی وجہ سے صرف وہاں خواتین کا ٹرن آؤٹ کم نہیں رہا بلکہ پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی خواتین کا کم ٹرن آؤٹ رپورٹ کیا گیا۔

ملتان کے این اے 152 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ صرف ایک اعشاریہ 92 فیصد رہا، جہاں تین لاکھ 90 ہزار ووٹرز میں سے صرف 75 ہزار422 خواتین نے اپنا حق رائی دہی استعمال کیا، اس حلقے میں مردوں کا ٹرن آؤٹ 2 اعشاریہ 13 فیصد رہا۔

این اے 178 مظفرآباد میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 2 اعشاریہ 13 فیصد رہا، جب کہ اس کے ملحقہ حلقے این اے 177 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 2 اعشاریہ24 فیصد رہا۔

این اے 175 راجن پور میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 2 اعشاریہ 34 فیصد، این اے 174 راجن پور میں 2 اعشاریہ 71 فیصد، این اے 145 اوکاڑہ میں 2 اعشاریہ 82 فیصد، این اے 61 چکوال میں 4 اعشاریہ 42 فیصد جب کہ این اے 64 سرگودھا میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 9 اعشاریہ 59 فیصد رہا۔

دستاویزات کے مطابق این اے 31 شانگلہ میں 4 اعشاریہ 59 فیصد رجسٹرڈ خواتین نے اپنا ووٹ استعمال کیا، بلوچستان کے ضلع خاراں کے حلقےاین اے 271 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 3 اعشاریہ 51 فیصد رہا جو حیران کن طور پر وہاں مردوں کے ٹرن آؤٹ 3 اعشاریہ 04 فیصد سے زیادہ تھا۔

مزید پڑھیں: خواتین ووٹرز پر پابندی کے لیے جرگہ متحرک

دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ حلقوں میں خواتین ووٹرز مردوں سے سبقت لے گئیں، اسلام آباد کے حلقے این اے 48 میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 61 اعشاریہ 75 فیصد رہا، جب کہ اسی حلقے میں مرد ووٹروں کا ٹرن آؤٹ صرف 60 اعشاریہ 01 فیصد تھا۔

اسی طرح راولپنڈی کے حلقے این اے 51 میں 52 اعشاریہ 31 فیصد مردوں کے مقابلے 53 اعشاریہ 24 فیصد رجسٹرڈ خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جب کہ اٹک کے حلقے این اے 58 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 64 اعشاریہ 35 فیصد رہا، اس حلقے میں مردوں کا ٹرن آؤٹ 61 اعشاریہ 81 فیصد رہا۔

جہلم کے حلقے این اے 62 میں 17 اعشاریہ 71 فیصد خواتین جب کہ 16 اعشاریہ 67 فیصد مردوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جن حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ مردوں سے زیادہ رہا ان میں بھکر کاحلقہ این اے 93، ٹوبا ٹیک سنگھ کا حلقہ این اے 101، گوجرانوالہ کا حلقہ این اے 103، مظفرآباد کا حلقہ این اے 111 اور 112، سیالکوٹ کا حلقہ این اے 115 ، نارووال کا حلقہ 116 اور مظفرآباد کا حلقہ این اے 180 شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کھانا پکاؤ، گھر کا کام کرو اور مردوں کو ووٹ دو!

کم رجسٹرڈ خواتین والے علاقے

الیکشن کمیشن نے مردم شماری کے ایسے 26 ہزار بلاکس کی نشاندہی کی ہے جہاں درج ووٹوں میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد 40 فیصد سے بھی کم ہے۔

الیکشن کمیشن کے صنفی معاملات کے ونگ نے ضلعی الیکشن کمشنر کے ساتھ اعداد وشمار کا تبادلہ کیا ہے، جو اعداد وشمار کا جائزہ لینے کے بعد خواتین کو ترجیحی بنیادوں پر رجسٹرڈ کرنے کے بعد ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ چار ماہ کے اندر الیکشن کمیشن کو جمع کرائیں گے۔

ڈان کو دستیاب الیکشن کمیشن کے ایک اور دستاویز سے پتہ چلتاہے کہ پنجاب کے 10 ہزار440 آدم شماری کے بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین کی تعداد کم ہے، ان آدم شماری کے بلاکس میں لاہور سرفہرست ہے۔

مزید پڑھیں: خواتین، ووٹ، انتخابات اور جمہوریت

پنجاب کے جن آدم شماری بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین کی تعداد کم ہے ان میں لاہور کے 872، سیالکوٹ کے 755، رحیم یار خان کے 743، شیخوپورہ کے 733، نارووال کے 620، قصور کے 509، بہاول نگر کے 501 اور جھنگ کے 490 بلاکس شامل ہیں۔

سندھ کے جن آدم شماری بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین کی تعداد کم ہے ان میں کراچی غربی کے 1575، کراچی وسطی کے 629، ملیر کے 560، کراچی جنوبی کے 590، اور کورنگی کے 401بلاکس شامل ہیں، جب کہ گھوٹکی کے258 ، حیدرآباد کے 204، خیرپور کے 131 اور کشمور کے 117 بلاکس شامل ہیں۔

خیبرپختونخوا کے کئی بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد 40 فیصد سے بھی کم ہے، جن بلاکس میں کم خواتین رجسٹرڈ ہیں ان میں لوئر دیر کے 601 ، کوہستان کے600، اپر دیر کے 469، پشاور کے 343، مردان کے 250، مانسرہ کے 147، چترال کے 138، چارسدہ کے 132، بٹاگرام کے 127 اور بنوں کے 103 بلاکس شامل ہیں۔

بلوچستان کےجن بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین کی تعداد کم ہےان میں خضدار کے 554، قلات کے 315، کوئٹہ کے 223، ڈیرا بگٹی کے 208، قلعہ عبداللہ کے 196، کوہلو کے 188، پشین کے 162، آواران کے 143، مستونگ کے 137، لہری کے 132، لورالائی کے 125،لسبیلہ کے 121، کچھی کے 114 اور جھل مگسی کے 105 بلاک شامل ہیں۔

فیڈرل ایڈمنسٹریٹڈ ٹرائبل ایریاز(فاٹا) کے جن بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین کی تعداد کم ہے ان میں شمالی وزیرستان کے 736، باجوڑ کے 350، مہمندایجنسی کے 337، جنوبی وزیرستان کے 266، خیبرایجنسی کے 240، ایف آر بنوں کے 141، کرم ایجنسی کے121 اور وفاقی دارلحکومت کے 53 بلاکس شامل ہیں۔


یہ رپورٹ یکم جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں