تحریر کو مفت کا مال سمجھنے والوں کے نام

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2017
قومی اخبارات نے سوشل میڈیا کو اپنی چراگاہ بنا رکھا ہے۔ جہاں کچھ پسند آیا، اٹھایا اور بلا اجازت و بلا معاوضہ چھاپ دیا۔ — فوٹو mktang/Shutter Stock
قومی اخبارات نے سوشل میڈیا کو اپنی چراگاہ بنا رکھا ہے۔ جہاں کچھ پسند آیا، اٹھایا اور بلا اجازت و بلا معاوضہ چھاپ دیا۔ — فوٹو mktang/Shutter Stock

پچھلے دنوں ملک کے ایک مشہور و معروف قومی اخبار کے ایک بڑے صاحب کا فون آیا، انہیں ڈان نیوز پر شائع ہونے والا میرا ایک بلاگ بہت پسند آیا تھا۔ یقین جانیے، بے انتہا خوشی ہوئی کہ میری تحریر اساتذہ کو اچھی لگی اور کسی سینیئر سے بھی توصیف سننے کو ملی۔

کہنے لگے کہ اس انگریزی اخبار میں اردو کو کون پڑھتا ہوگا، آپ ہمارے اخبار کے لیے لکھیے۔ میں نے کہا ضرور، میرا دل بھی للچایا کہ اتنے بڑے اخبار میں میری تحریر شائع ہوگی تو کیا ہی بات ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ ان سے ملاقات طے ہوئی اور ان کے دفتر جا پہنچا۔

وہ بہت مصروف تھے، لیکن بہت خوشدلی سے ملے۔ ساری باتیں طے ہو گئیں سوائے معاوضے کے۔ لکھنے والوں میں وضع داری عام لوگوں سے کچھ زیادہ ہوتی ہے، اس لیے باوجود خواہش کے پوچھ نہ پایا کہ آپ کا یہ عظیم الشان اخبار معاوضہ کیا دے گا؟

اس بارے میں سوچتا رہا، سوچتا رہا، پھر ایک دن ان کو پیغام لکھ بھیجا کہ آپ کے ہاں کسی معاوضے کا اہتمام بھی ہوتا ہے کہ نہیں؟ دو ایک ہفتے گزر گئے لیکن جواب ندارد، اور امید بھی نہیں کہ جواب آئے گا، کیوں کہ ہمارے ہاں قومی اخبارات کا وطیرہ ہے کہ عام لکھنے والوں کو معاوضہ دینے کے روادار نہیں۔ کچھ ایک دو اخبارات اعزازیہ عنایت کرتے ہیں جس سے اونٹ کے منہ میں زیرے والی ضرب المثل بنتی ہے۔

پڑھیے: کاپی رائٹ، صحیح یا غلط

مجھ سمیت اکثر لوگ اخبارات اور میڈیا ہاؤسز کے مالکان کے خلاف بات کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کیوں کہ یہ ایک منٹ میں آپ کا خلاصہ کھول کر رکھ دیں۔ آپ نے پانچویں چھٹی جماعت میں جو خاموش عشق کیے ہیں، ان کی داستانیں تک کھود لاویں ہیں، جبکہ ان اخبارات کے لیے کام کرنے والے 'تحقیقی صحافی' اور 'سینیئر صحافی' وغیرہ بھی فلموں کے ان کرداروں کی ہی طرح ہیں جو سیٹھ کے غنڈوں کا کردار ادا کرتے ہیں، جن کا کام کسی کمزور پر ظلم کرنا ہوتا ہے۔ اپنی ذات کو سائے تلے رکھنا، بچائے رکھنا اور صرف اپنے مفادات کی حفاظت کرنا ہی ان کا اولین کام ہوتا ہے۔

ابھی اسی رواں ہفتے فیصل آباد سے ایک دوست نے ایک اخبار کی تصویر بھیجی کہ اس میں آپ کا مضمون چھپا ہے، ایسا مضمون جو میں نے انہیں بھیجا ہی نہیں۔ یہ مضمون ڈان نیوز میں شائع ہوا ہے جہاں سے یہ اس اخبار نے چُرا لیا، کیوں کہ یہ جن تصاویر کے ساتھ چھپا ہے وہ میرے اپنے بلاگ پر بھی نہیں چھپیں بلکہ صرف ڈان نیوز پر ہی چھپی ہیں۔ عبارت کا ابتدائی حصہ بھی کاٹ دیا گیا، لیکن شکر ہے کہ میرا نام باقی ہے، وگرنہ تو کسی کو کان و کان خبر نہ ہوتی کہ کس کی تحریر ہے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ بہ یک وقت 11 شہروں سے اشاعت کے دعوے دار اس اخبار نے یہ مضمون اپنے فیصل آباد ایڈیشن میں شائع کیا ہے، جو کہ انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں ہے۔ یعنی اگر آپ یا آپ کے احباب ایسے اخبارات خریدتے نہیں ہیں، اور یہ انٹرنیٹ پر بھی موجود نہیں، تو یہ نہایت آرام سے کسی بھی دوسرے ملکی و غیر ملکی اخبار، ویب سائٹ، جریدے، ٹی وی چینل کا مواد چرا چرا کر اپنے اخبار کا پیٹ باقاعدگی سے بھر سکتے ہیں، اور کسی کو شبہ تک نہیں ہونے والا کہ پسِ پردہ معاملہ کیا ہے۔

ابھی کچھ دیر پہلے ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے اپنا ایک مضمون ایک انگریزی اخبار کو بھیجا، جو ایک ماہ بعد تھوڑی سی رد و بدل کے بعد کسی اور نام سے کسی دوسرے اخبار میں چھپا تھا۔ یعنی ایسا ہونا بھی بعید از قیاس نہیں ہے۔ اس سے پہلے ہمارے بلاگر دوست مصطفیٰ ملک کی ایک تحریر ایک مشہور پاکستانی اخبار کی ایڈیٹر صاحبہ نے اپنے نام سے چھاپی تھی۔ اس ماحول میں تحریر چوری ہونے کے بعد بھی آپ کے نام سے ہی شائع کی جائے، تو بھی غنیمت ہی لگتا ہے۔

پڑھیے: انمول الفاظ کوڑیوں کے دام

چند دن پہلے ہی ایک ویب سائٹ نے میری ایک اور تحریر جو ڈان نیوز میں شائع ہوئی تھی، میرے بلاگ سے کاپی کر کے اپنی ویب سائٹ پر لگائی ہے۔ اجازت وغیرہ کا چکر ہی کیا، بس جو مزاج یار میں آئے کیوں کہ قومی اخبارات نے سوشل میڈیا کو اپنی چراگاہ بنا رکھا ہے۔ جہاں کچھ پسند آیا، اٹھایا اور چھاپ دیا۔

پاکستانی میڈیا جس کسوٹی پر دنیا کو پرکھتا ہے، اے کاش کہ خود بھی اسی ترازو میں خود کو ڈالے۔ کیا یہ کھلا استحصال نہیں؟ کیا یہ ڈاکہ زنی کی واردات نہیں؟ کیا تحریر کی چوری پر کوئی تعزیر نہیں ہوتی؟

اگر یہ خیراتی ادارے ہیں تو تحاریر مفت لے جائیں، لیکن اگر آپ اپنے اخبار سے کروڑوں کا منافع کماتے ہیں تو لکھنے والوں کو اُس آمدن میں سے حصہ دینے سے کیوں کتراتے ہیں جو آپ کو یہی تحاریر کو بیچ کر حاصل ہوتی ہے؟

دنیا میں کاپی پیسٹ اور لنکنگ کے کئی اصول وضع ہیں۔ دنیا میں بڑے بڑے اخبارات نے اپنی خبر کے نقل کیے جانے کے اصول وضع کر رکھے ہیں۔ آپ صرف کسی کا نام دے کر، یا دوسرے پر احسان کرتے ہوئے "بشکریہ" لکھ کر خبر اٹھا نہیں سکتے۔ اس کے لیے آپ کو لکھنے والے سے یا ادارے سے، یا پھر دونوں سے تحریری اجازت نامہ لینا ہوتا ہے۔

اکثر صورتوں میں اس اجازت نامے کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے۔ کچھ صورتوں میں آپ لنک دے کر کسی جگہ سے کاپی کر سکتے ہیں، مگر ہاں تب، جب آپ ایک غیر منافع بخش ادارہ چلا رہے ہوں، لیکن اگر آپ ایک منافع بخش کمپنی چلا رہے ہیں تو آپ کسی صورت بلااجازت و بنا معاوضہ تحریر نہیں اٹھا سکتے۔

پاکستان کے کئی اخباری ایڈیٹرز اس امر کو جائز سمجھتے ہیں۔ کسی دوسرے اخبار سے خبر اٹھا لینا پاکستانی ماحول میں بالکل بھی برا نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے لوگ کم پڑھے جانے والے مصنفین یا بلاگرز کی تحاریر چھاپ کر کسی ندامت کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ وہ کسی کا بھلا کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ہمارے بلاگرز، کالم نگاروں، لکھنے والوں میں بھی اس آگاہی کی کمی ہے کہ وہ اپنی تحریر سے فوائد کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔ لکھنے والوں میں سے زیادہ تر افراد ایسے ہیں کہ جن کی تحریر اگر دوسرے اخبار یا ویب سائٹ پر شائع ہو، تو وہ اسے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی سمجھنے کے بجائے اپنی شہرت سمجھ کر خوش ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پرائے مواد پر قائم اداروں کا حوصلہ بڑھتا ہے۔

پڑھیے: چوری کرتے ہوئے ہاتھوں میں چراغ

اس ماحول میں جب سیڑھی پر چڑھنے کا طریقہ کار ہی ایک ہو تو کوئی نہ کوئی بغل بچہ کبھی کبھی نہ پکا صحافی یا ایسا صحافی جو لکھنے سے پیسے کما سکے بن ہی جاتا ہے۔ پھر اس طرح وقت کی بھٹی میں کوئلہ بنے ہوئے استاد لوگ مارکیٹ لیڈر بنتے ہیں تو سب کو اسی طرح ہی تربیت دیتے ہیں جیسے کہ ان کی اپنی تربیت کی گئی تھی۔

پاکستانیوں کو اخلاقیات کا درس دینے والے ادارے کیا خود بھی کسی اخلاقی حد کے پاسدار ہیں؟ کیا جو صحافی صبح و شام ان اداروں میں کام کر رہے ہیں ان کو اپنے خون پسینے کا پورا معاوضہ مل پاتا ہے؟ ایسے درجنوں گلے میرے دل میں پرورش پاتے ہیں۔

اہلِ ہنر ہر دور میں آشفتہ حال رہے ہیں، لیکن اہلِ ہنر کا استحصال اور اس پر گہری خاموشی، اس سے گھناؤنا جرم کیا ہو گا؟ میرا رزق ابھی اس پیشے سے وابستہ نہیں مگر جن کی روزی روٹی ہی لکھنا ہے ان گھروں پر کیا بیتتی ہوگی؟

میں نے پچھلے دنوں سفری بلاگ لکھنے کا آغاز کیا۔ ایک ایک سفر کی ایک ایک تصویر اپنی قیمت رکھتی ہے۔ اگر آپ نے پراگ کے چارلس برج کی اچھی تصویر لینی ہے تو آپ کو اس پل کے کونے پر ایک برجی پر اوپر جانا ہو گا، اس کی قیمت پندرہ یورو ہوگی۔ شہرِ فاطمہ پر بلاگ ہم نے لزبن سے ڈیڑھ دو گھنٹے تک ڈرائیو کر کے تیار کیا تھا۔ اوسلو کے ایئر پورٹ سے سینٹرل اسٹیشن تک جانے کا خرچ عوامی ٹرانسپورٹ پر بھی پانچ ہزار روپے کے قریب ہو گا۔

کیا عوام کی آواز ہونے کا دعویٰ کرنے والے ان مشہور اخبارات نے کبھی سوچا ہے کہ جو خونِ جگر اس تحریر کو لکھنے پر صرف ہوتا ہے، اس کا معاوضہ کیا ہے؟ کبھی آپ بھی سوچیے، لوگوں کو سوچنے کی دعوت دینے سے ذرا پہلے۔

تبصرے (20) بند ہیں

عائشہ Jan 03, 2017 01:20pm
آپ کو صرف بلاگ لکھنے کی بجائے اس اخبار کے مالک کو لیگل نوٹس دینا چاہے ۔ اگر آپ کا تعلق صوبہ پنجاب ، کے پی کے سے ہے تو آپ سول کورٹ کے علاوہ ’’صارف عدالت ‘‘ سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔ وہاں نہ تو کوئی فیس ہے اور نہ ہی کسی وکیل کی ضرورت ، فیصلہ بھی ایک دو ماہ میں ہوجاتا ہے ۔ صارف عدالت بھی جنرل مشرف کا احسان ہے ۔ ورنہ جہوریت میں تو عوام کو صاف پانی بھی نہیں ملتا
Yasir Mehmood Jan 03, 2017 01:35pm
Good to see that you have raised voice against this copy paste practice from print news papers in Pakistan. I have seen some other bloggers highlighting the same issue. Most news papers are just copy pasting news from online with news source as "Online". With Urdu papers this is very common.
راجہ افتخار خان Jan 03, 2017 03:03pm
آپ کا اٹھایا گیا مضمون ایک بڑا المیہ ہے۔ ہمارے ہاں ہر چیز کو مفت لینے اور کھانے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ بلخصوص میڈیا ھاؤسز کسی چھوٹے اور گمنام لکھاری کو کچھ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ تو خیر کچھ بھی نہیں انہوں نے تو اپنے بڑے بڑے نامور اداکاروں کو بھی غربت اور بڑھاپے میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں۔ کہ فلاں اداکار کسمپرسی کے حالات میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ چھوٹے لکھاری، بلاگر کونسے باغ کی مولی ہیں۔ انکو تو ہمارے میڈیا ہاؤسز یوں کڑیچ کڑیچ کر کھا جائیں اور ڈکار نہ ماریں۔ سوشل میڈیا نے جہاں ان بڑے پاکستانی میڈیا ہاؤسز کےلئے چراہ گاہ کا کام کیا ہے وہیں پر ان کا کچا چٹھا بھی کھل رہا ہے۔ آج اس موضوع پر بات ہورہی ہے۔ چوریاں سامنے آرہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس موضوع پر نہ صرف آواز اٹھائی جاوے بلکہ چوروں کے خلاف ایک اجتمائی اگاہی کی مہم بھی چلائی جاوے۔ آپ کی یہ تحریر اس سلسلہ کا آغاز سمجھی جاسکتی ہے۔
RIZ Jan 03, 2017 03:16pm
VERY VERY GOOD ONE,, yes they have to pay people like you, coz because of you guys (good writers) we open these webs and wait for blogs,,,
رمضان رفیق Jan 03, 2017 04:23pm
@RIZ Thank you for your kind comments , stay connected . Regards
رمضان رفیق Jan 03, 2017 04:26pm
@راجہ افتخار خان شکریہ راجہ صاحب، سوشل میڈیا پر لکھنے والے لوگوں کو اس ظلم پر آواز بلند کرنا ہوگی ، تاکہ لکھنے والوں کی زندگی میں بھی بہتری آئے
فدا حسین Jan 03, 2017 04:47pm
اللہ کی قسم کی میری کہانی اس کہانی سے کچھ مختلف نہیں، مقامی اخبارات والے توخبر میرئے نام سے شائع کرنے کو ہی مجھ پر احسان سمجھتے ہیں۔ ایک موقر اردو اخبار نے معاوضہ کچھ نہ کچھ ضرور دینے وعدہ کیا مگر آج تک وہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔
Ashian Ali Jan 03, 2017 06:14pm
great lines
Nouman Younas Jan 03, 2017 07:06pm
اردو بلاگرز کے دل کی بات کردی. ویسے تو پاکستان میں ان معاملات میں عام بندہ لیگل ایکشن لیتے ویسے ہی ڈرتا ہے اوپر سے یہاں نہ بلاگرز کی یونین ہے نہ باہمی اتحاد.
عبدالحفیظ Jan 04, 2017 09:32am
رمضان رفیق صاحب، آپ کے مضامین بہت عمدہ اور معلوماتی ہوتے ہیں۔ خصوصا یورپ کے شہروں پر لکھے مضامین بہت اچھے لگے۔ مضمون کا عنوان سوچنے سے مکمل لکھنے تک جو مراحل آتے ہیں وہ لکھنے والا ہی جانتا ہے اور پھر لکھاری جب کسی ادارے کو مضمون بھیجتا ہے تو وہ اُس کی ذاتی پسند ہوتی ہے کہ فلاں ادارہ اُس کی تحریر چھاپے۔ ہوتا یہ ہے کہ اکثر میڈیا ہاؤسز، ٹی وی پر تو مختلف تراکیب کے پروگرامز کرتے رہتے ہیں کیونکہ کمرشلز کی بھر مار ہوتی ہے لیکن ویب سائٹ کو وہ اتنی اہمیت نہیں دیتے اور وہاں نظر خبروں کی اپ ڈیٹ لگانے پر ہی رکھتے ہیں۔ بلاگز وغیرہ کا ٹرینڈ عموماً نہیں ہے میڈیا ہاؤسز کی ویب سائیٹ پر، سوائے ایک دو کے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ وہ لوگوں کو ترغیب دیں کہ لوگ اُن کی ویب سائیٹ کے لئے مضامین لکھیں؛ لیکن وہ مختلف ویب سائیٹس پر لکھے گئے مضامین کو اُٹھا کر اپنی سائیٹ پر لگا کر "بلاگز" کے خانہ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ ایسے معاملے میں ایک دفعہ متعلقہ میڈیا ہاؤس یا اخبار کے ایڈیٹر کو ای۔ میل کریں یا فون کر کے معاملہ ڈسکس کر لیں، ہو سکتا ہے آئندہ کے لئے مسئلہ پیدا نہ ہو۔ آپ کی مزید تحاریر کا انتظار رہے گا۔
رمضان رفیق Jan 04, 2017 01:40pm
@عبدالحفیظ ، بلاگز پسند کرنے کا شکریہ، لکھنے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس پڑھنے والے زیادہ ہوں، میں لکھنا بھی چاہتا ہوں، لیکن میں یہ کام مفت نہیں کرنا چاہتا ان لوگوں کے لئے جو اس سے پیسے کماتے ہوں۔ اب اگر ڈان لکھنے والوں کی اعانت کرتا ہے تو باقی اداروں کو چاہیئے کہ معاوضہ دینے کی روش کاپی کریں نہ کہ تحریر کاپی کریں۔
fan Jan 04, 2017 05:52pm
Dear brother, you are right, I confessed that i have also copy some blogs, edited or rewrite some paragraphs and published. But i think if your piece is published with your name then you have not worry about pay, you must pride on yourself that your piece has worth that other copy them.
حسن اکبر Jan 04, 2017 06:13pm
بہت اچھا بلاگ تھا۔ میں عائشہ کی تجویر کی حمایت کرتا ہوں۔ آپ کو ان اخبارات کے خلاف قانونی کاروائی کرنی چاہے ۔ کم از کم لیگل نوٹس بھیجنے کر وضاحت طلب کی جاسکتی ہے ۔ وہ کس قانون /اصول کے تحت ایسا کررہے ہیں۔ چونکہ اس طرح کی حرکت کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ اس لئے عموما لیگل نوٹس کے بعد فون پر یا ملاقات کے ذریعہ معاملہ ختم ہوجاتا ہے ۔ لیکن آئندہ انتظامیہ اور مالکان ایسی حرکت کسی دوسرے کے ساتھ نہیں کرتے میرے ذاتی خیال ہے ۔ میڈیا مالکان یا باقاعدہ صحافی اس طرح کی حرکت نہیں کرتے ۔ ویب سائٹ عموما آئی ٹی ماہرین چلاتے ہیں۔ جن کو سوفٹ وئیر /ویب سائٹ ڈوپلمینٹ کے دوران ’’کوڈ ‘‘ کاپی پیسٹ کرنے کی عادات ہوتی ہے ۔ وہ شاید لاعلم ہوتے ہیں۔ کہ ’’سورس کوڈ ‘‘ کی طرح خبر یا آرٹیکل کی کاپی پیسٹ کا بھی کسی کو علم نہیں ہوگا۔ لیکن ان کو سمجھنا چاہے کہ اس طرح کی حرکت ان کے لئے اوران کے ادارے کے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے ۔
رضا اعجاز Jan 04, 2017 07:57pm
پاتال سے خبر ڈھونڈ لانے والوں اور بات کا پتنگڑ بنانے والوں کو ایک عدد ٹاک شو اس شرمناک معاملے کو زیر بحث لاتے ہوۓ بھی تو کرنا چاہیے .میرا ذاتی خیال ہے اور خواہش بھی کہ یہ سلسلہ جو اب شروع ہو چکا ہے اب رکنا نہیں چاہیےاور یہ معاملہ جس جس فورم پے ممکن ہو اٹھایا جانا چاہیے چاہے اس کے لیےکوئی بھی لائحہ عمل بنانا پڑے.دوسروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والوں کو خود بھی کٹہرے میں لانا بنتا ہے
رمضان رفیق Jan 04, 2017 11:30pm
@fan proud of what, someone copied and even not acknowledged? due to people like you artists suffer in our society. Its not my case, I am fighting for dozens , even they can not speak as this work is their bread and butter. You seems to be alive at least, please don't do it and support genuine writers and creators. Regards
رمضان رفیق Jan 04, 2017 11:42pm
@رضا اعجاز سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں حضور، شکر یہ ہے کہ ابھی کچھ لوگوں کا ضمیر زندہ ہے، وگرنہ یہ بلاگ بھی دیکھنے کو نہ ملتا۔ ایک صحافی بھائی نے انباکس کیا ہے اللہ تعالی آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ، اس سے آگے اور کیا کہیں ۔۔۔۔
asimuddin Jan 05, 2017 10:13am
good
ثروت ع ج Jan 05, 2017 06:20pm
بہت اہم مسئلے کی بارے میں آواز اُٹھائی ہے۔ دکھڑا رونے سے کم تو کیا ہوگا، اب یہ بتائیے کہ اس کے علاج کی بھی کوئی صورت ہے یا نہیں؟ یا یہی کہ لکھنے والے اور سوچنے والے تھک ہار کر چھوڑ بیٹھیں اور معاشرہ محض مادیت پرست و بےحس ہوتا چلا جائے ؟ آپ بلاگنگ کو ایک نئی زندگی دینے کی امید کی راہ پہ لئے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
رمضان رفیق Jan 06, 2017 03:25am
@ثروت ع ج ، جی یہ ضرور حل ہو گا، ورنہ یہ بات میرے دعووں کی مد میں لکھی جائے کہ پاکستان تو کیا دنیا بھر میں روایتی پرنٹ میڈیا اپنا منافع برقرار نہ رکھ پائے گا، سوشل میڈیا اپنا حصہ وصول کر کے رہے گا، اور قرین قیاس یہ بھی ہے کہ برتری حاصل کر لے
عمران اقبال قائم خانی Jan 07, 2017 07:59pm
رمضان بھائی پاکستان کی صحافت میں یہ کام بڑے زورشور اور دھڑلے سے کیا جا رہا ہے ، گزشتہ سال روزنامہ جنگ نے بھی کرکٹ ورلڈ کپ 2015کے لئے لکھا جانے والا میرا ایک مضمون اسپورٹس صفحے کے انچارج نے اپنے نام اور تصویر کے ساتھ شائع کر دیا تھا بہت تکلیف دہ لمحہ تھا میں نے انچارج صاحب کو متعدد مرتبہ فون کیا صرف یہ پوچھنے کہ لئے کہ اگر یہ ادارے کی غلطی ہے تو اس کی تصحیح کر لیں مگر انچارج صاحب نے میری کسی بھی کال کو اٹینڈ کرنا گوارا نہیں کیا، یہ لوگ خود ادارے سے مشاہرہ لیتے ہیں مگر تحریریں ہم جیسے طفل مکتب لکھاریوں سے بلامعاوضہ لکھواتے ہیں ۔