جہاں کراچی میں حالیہ آپریشن کے باعث سیاسی بحران نے جنم لینا شروع کیا ہے اور کراچی کے عوام سیاسی یتیمی کا شکار ہونے لگے ہیں، وہاں ان کی یتیمی کو دور کرنے اور کراچی کی سیاست میں اپنی حیثیت منوانے کے لیے ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتیں للچائی نظروں سے وہاں دیدے گاڑے دکھائی دیتی ہیں۔

تاہم یہ تمام جماعتیں عملاً کسی قسم کا فعال سیاسی کردار ادا کرتی نظر نہیں آتیں اور اس صورتحال کا بھرپور فائدہ میدان میں تنہا موجود نومولود سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی اٹھا رہی ہے۔ دوسری جانب سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم پاکستان اپنے بانی سے لاتعلقی کے بعد ایک نئی پہچان بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی ساکھ بچانے اور برقرار رکھنے کی جدوجہد میں جتی ہوئی ہے۔

دونوں جماعتیں کراچی اور حیدرآباد میں عظیم الشان جلسہ عام منعقد کرنے میں تو بھلے ہی کامیاب ہوئی ہیں لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کیا یہ عوامی جلسے 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی کی نوید ثابت ہوں گے یا پھر پاکستان تحریکِ انصاف کے جلسوں کی طرح صرف و صرف میوزیکل کنسرٹ ثابت ہوں گے۔

پڑھیے: ایم کیو ایم کی قیادت پریشان کیوں؟

یہ دیکھنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا ہوگا. جب 2018 کے عام انتخابات سے قبل اسمبلیاں تحلیل کی جائیں گی، تب تمام سیاسی منظر نامہ واضح ہو جائے گا کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے اور کس پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے۔

سندھ کے شہری عوام میں ایک عام تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اپنے بانی سے لاتعلقی کے باعث اپنی سیاسی حیثیت کھو چکی ہے اور قوی امکان ہے کہ آنے والے عام انتخابات سے قبل اپنا رہا سہا وجود بھی کھودے گی۔ اس بات کا ادراک اسٹیبلشمنٹ کو بھی بخوبی ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی تمام ہمدردیاں پاک سرزمین پارٹی کو حاصل ہیں۔

اِس وقت کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں جہاں جہاں اردو بولنے والے آباد ہیں وہاں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے اپنی سیاست چمکانے، سیاسی ساکھ بنانے اور اسے پروان چڑھانے کے لیے نہ صرف کھلا میدان مہیا ہے بلکہ اردو بولنے والے طبقے سے سیاسی قربتیں بڑھانے اور اعتماد کی فضاء بحال کرنے کا بھی بہترین موقع بھی حاصل ہے۔

ایسے میں پاکستان کے تمام صوبوں میں اپنی نمائندگی رکھنے والی سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کا سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی اور حیدرآباد میں عدم دلچسپی اور مہاجر علاقوں میں پارٹی کا سیاسی طور پر غیرفعال ہونا باعثِ تعجب ہے۔

اب جبکہ اس سیاسی خلاء کو پُر کرنے کا موقع میسر ہے ایسے میں پارٹی قیادت کا ان علاقوں سے لاتعلق رہنا انتہائی غیر سنجیدہ رویہ ہے۔

پارٹی قیادت کی جانب سے اختیار کیے گئے اس غیر سنجیدہ رویے کا اندازہ اس بات سے ہی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے حالیہ کراچی تنظیم سازی کے حوالے سے ایک ایسے شخص کو کراچی ڈویژن کا صدر بنایا گیا ہے جس پر کرپشن کے الزامات ہیں، جو قریب دو سال سے ریاستی اداروں کی تحویل میں ہے، جس پر عدالت میں کیس زیر سماعت ہیں اور جس کی ضمانت کے لیے پارٹی کی اعلیٰ قیادت رات دن کوششیں کر رہی ہے کہ کسی طرح انہیں رہا کروا کر ملک سے نکلوایا جائے۔

پڑھیے: متحدہ قومی موومنٹ ایک ناکارہ مشین؟

ایسی صورتحال میں وہ کس طرح کراچی میں ایک فعال سیاسی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ جبکہ اس وقت بھی کراچی کے سارے معاملات سینیٹر سعید غنی سنبھال رہے ہیں جو نئے سیٹ اپ میں ڈاکٹر عاصم کے ساتھ کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری نامزد ہوئے ہیں۔ مگر ان کی جانب سے بھی کراچی میں، جہاں اردو بولنے والوں کا ایک بھاری ووٹ بینک ہے، وہاں پارٹی کو فعال بنانے میں کسی قسم کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

کم و بیش یہی صورتحال سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کی بھی ہے، جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے اردو بولنے والے کئی ایسے نظریاتی کارکن موجود ہیں جو مہاجر علاقوں میں پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر فعال کرنا چاہتے ہیں اور اس خواہش کو اپنے دل میں لیے انتہائی مضطرب ہیں کہ وہ سائیں بھٹو کی پارٹی کو اپنے علاقوں میں تنظیمی طور پر نہ صرف فعال کریں بلکہ بھاری اکثریت سے ان علاقوں میں پارٹی کو کامیاب بھی کروائیں۔

مگر ابھی تک سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص اردو بولنے والے علاقوں میں پاکستان پیپلزپارٹی اپنا مؤثر سیاسی کردار ادا کرتی نظر نہیں آتی۔ اس حوالے سے پارٹی کے اندر ایک گمان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ پارٹی کو مہاجر علاقوں میں فعال کرنے سے پارٹی کے اندر کثیر تعداد میں اردو بولنے والے طبقے کی شمولیت سے ان کی نمائندگی بھی بڑھ جائے گی، جو کہ پارٹی کے اندر لسانی تعصب رکھنے والے عناصر کو کسی طور منظور نہیں، لہٰذا یہ عناصر نہیں چاہتے کہ پارٹی مہاجر علاقوں میں فعال ہو۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے اس طرح کا رویہ اردو بولنے والوں کے لیے نہ صرف تشویش کا باعث ہے بلکہ ان کے ساتھ لسانی تعصب برتے جانے کے احساس کو مزید تقویت فراہم کرتا ہے۔

پڑھیے: ایم کیو ایم دفاتر کی 'ون وِنڈو سروس'

چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلٰی قیادت جناب آصف علی زرداری سمیت پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو سندھ کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے دور اندیش فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

اعلٰی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کو ہر طرح کے نسلی و لسانی تعصب سے پاک کر کے مہاجر عوام کو سندھ دھرتی کا سچا سپوت مانتے ہوئے پارٹی میں مہاجر نمائندگی یقینی بنائیں، اور سندھ کے شہری علاقوں میں بھی اپنا فعال کردار ادا کریں جہاں پارٹی کے ڈھیروں نظریاتی کارکنوں کے ساتھ ساتھ مہاجر عوام بھی پیپلز پارٹی کے منتظر ہیں.

تبصرے (1) بند ہیں

RIZ Jan 08, 2017 09:24am
PPP hamsesha se hi urban Sindh se dur rahi hai,, is main Mirpurkhas, Sukkur aur Nawabshah city bhi shamil hain. PPP ne Sindh rural main koi kaam nahi kiye urban Sindh main kya karain ge. deliberately MQM ko fail karne k liyee shehri areas ko projects nahi diye 8 saalon se. very sad..