اسلام آباد: ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کے گھر میں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کو پولیس نے اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سے بازیات کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔

پولیس ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ طیبہ کو اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں موجود ایک گھر سے بازیاب کرایا گیا۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ میڈیا پر آنے کے بعد طیبہ کے 'والد' ہونے کے دعوے دار شخص نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا تھا اور اسے حوالے سے راضی نامہ بھی کیا گیا تھا۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے مبینہ والد کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی 'اعتراض' نہیں۔

مزید پڑھیں: طیبہ کے 'والدین' کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم

راضی نامے کے بعد وہ شخص طیبہ کو لے کر چلا گیا تھا تاہم جب سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا تو سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے بچی اور اس کے والدین کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا اور اگلی سماعت میں بچی اور اس کے حقیقی والدین کو پیش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی اور اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی۔

دوسری جانب یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ میڈیا تک خبر پہنچا کر پولیس بازیابی کا کریڈٹ خود لینا چاہ رہی ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ طیبہ بازیاب نہیں ہوئی بلکہ اسے قریبی عزیزوں نے پولیس کے حوالے کیا ہے اور بچی کے ہمراہ اسکے پہلے والدین بھی ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق بچی طیبہ کا کل پیر کے روز پمز میں میڈیکل چیک اپ ہوگا جس کے بعد 11جنوری کو اسے سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ کیس میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تفتیش جاری ہے،اسلام آباد پولیس نے طیبہ کو والدین کے ساتھ بحفاظت تحویل میں لے لیا ہے۔

طیبہ کیس، کب کیا ہوا؟

کمشن ملازمہ پر تشدد کا معاملہ اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

ویڈیو دیکھیں: گھریلو ملازمہ پرتشدد کا مقدمہ،ایڈیشنل سیشن جج پر الزام

بعدازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے مبینہ والد کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی 'اعتراض' نہیں۔

10 سالہ بچی کے مبینہ والد کی جانب سے بیان حلفی میں تحریر کیا گیا تھا کہ 'انھوں نے کسی دباؤ کے بغیر راضی نامہ کرلیا ہے اور وہ مقدمہ میں نامزد جج کو فی سبیل اللہ معاف کرتے ہیں، عدالت جج یا ان کی اہلیہ کو بری کرے یا ضمانت دے انھیں کوئی اعتراض نہیں'۔

بچی کے والد نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پر معاملے کی چھان بین کی ہے اور انھیں پتہ چلا ہے کہ یہ کیس جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا تھا۔


تبصرے (0) بند ہیں