سیاسی و عسکری قیادت کا فوجی عدالتوں میں توسیع پر اتفاق

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2017
— فوٹو: بشکریہ وزیر اعظم ہاؤس
— فوٹو: بشکریہ وزیر اعظم ہاؤس

اسلام آباد: ملک کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر اتفاق کرلیا۔

فوجی عدالتوں میں توسیع کی مدت تمام سیاسی جماعتوں کی رضا مندی کے بعد طے جائے گی، جبکہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے آئینی ترمیم کے حوالے سے وفاقی حکومت نے پہلے ہی مشاورت شروع کردی ہے۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت خارجہ تعلقات سے متعلق سیاسی و عسکری قیادت کا اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔

اجلاس میں ملک کی داخلی و خارجی سیکیورٹی کی صورتحال کا تفصیلی کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں شرکا نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو کسی بھی صورت میں برداشت نہ کرنے کی پالیسی جاری رکھنے اور ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کے عزم کو دہرایا۔

اجلاس میں قومی پالیسی مقاصد کے حصول کے لیے ہر سطح پر کوششیں جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

فوجی عدالتوں کے حوالے سے شرکا کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں نے ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ ان سے آپریشن ’ضرب عضب‘ کے تحت کارروائیوں کو معنی خیز بنانے میں بھی مدد ملی۔

یہ بھی پڑھیں: 'معیاد ختم، ملٹری کورٹس نے کام کرنا بند کردیا'

شرکا نے اتفاق کیا کہ پاکستان داخلی امن کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ، وزیر اعظم کے سیکریٹری اور دیگر سینئر حکام نے شرکت کی۔

واضح رہے کہ ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی دو سالہ مدت 2 روز قبل ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد ان عدالتوں نے کام بند کردیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ فوجی عدالتوں کو حاصل خصوصی اختیارات کی میعاد ختم ہونے کے بعد ان عدالتوں نے کام کرنا بند کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کی توسیع کا معاملہ: دہشتگردی کے مقدمات پر اثرانداز

بیان میں کہا گیا کہ فوجی عدالتیں اس وقت آئینی ترمیم کے ذریعے قائم کی گئی تھیں جب ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی۔

یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے حملے کے بعد 6 جنوری 2015 کو آئین میں 21ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015 (ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیئے گئے تھے، جس کا مقصد ان سول افراد کا ٹرائل کرنا تھا جن پر دہشت گردی کے الزامات تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ajmal khan Jan 09, 2017 09:14pm
سوال ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت کا فوجی عدالتوں میں توسیع پر اتفاق فوجی عدالتوں کے کام بند کرنے کے بعد کیوں ہوا؟ کیا حکومت کے اہل مقتدر شخصیات اس انتظار میں تھیں کہ یہ کام ہم اسی وقت کریں گے جب ان فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہو جائے گی، بد قسمتی ہے سانحہ ہونے کے بعد ہوش میں آنے کا وقت انتہائی مختصر ہوتا ہے رینجرز کے اختیارات کا معاملہ بھی سامنے ہی ہے کراچی کا امن ہو یا ملک کا حکمران عوام کے بجائے اپنا مفاد ہی دیکھتے ہیں؟ کیا عوام خود متحد ہوکر کوئی کام نہیں کر سکتے جو ان بکاﺅ سیاستدانوں کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اور اپنی نسل کشی کراتے ہیں۔آخر پبلک سرونٹ کو سر پر چڑھانے کا صلہ عوام ہی کیوں بھگتیں؟