سعودی اتحاد میں جنرل راحیل کا عہدہ: حکومت سے وضاحت طلب
اسلام آباد: سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے براہ راست حکومت سے استفسار کیا ہے کہ کیا سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب کے تحت 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کے کمانڈر کا عہدہ قبول کرنے سے قبل وفاقی حکومت سے اجازت طلب کی تھی یا انھیں اعتماد میں لیا گیا تھا؟
چیئرمین سینیٹ نے ریٹائر افسر کے حوالے سے قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے خواجہ آصف سے سوال کیا کہ 'کیا وفاقی حکومت کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور کیا اس حوالے سے 'اعتراض نہیں ہے' کا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا ہے؟'
اس حوالے سے حکومت کی جانب سے جواب آئندہ روز (بدھ) کو متوقع ہے۔
وفاقی وزیر دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ 'میں نے ٹی وی پر آپ کا بیان سنا اور آپ خود بھی واضح نہیں تھے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے ڈاکٹر مصدق ملک کے متضاد بیان نے معاملے کو مزید مبہم کردیا ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین نے وزارت خارجہ سے مذکورہ فیصلے کے خارجہ پالیسی پر مرتب ہونے والے اثرات کی وضاحت طلب کی ہے، یاد رہے کہ پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس میں اس طرح کے کسی بھی اتحاد کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا گیا تھا جسے خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک اہم قدم قرار دیا جارہا تھا۔
خیال رہے کہ اب تک سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اسلامی اتحادی فوج کے کمانڈر کا عہدہ سنبھالنے کے حوالے سے سرکاری تصدیق سامنے نہیں آئی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے جیو نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے براہ راست اس خبر کی تصدیق کی تھی کہ سابق آرمی چیف کو اسلامی اتحادی فوج کا کمانڈر مقرر کردیا گیا ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ حکومت سابق آرمی چیف کے فیصلے سے آگاہ نہیں تھی۔
سماء نیوز کے پروگرام میں اسحاق ڈار نے سعودی عرب کی جانب سے جنرل راحیل کو دی جانے والی پیشکش سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی اتحاد کی سربراہی کا عہدہ قبول کرنے سے قبل حکومت سے مشاورت کرنی چاہیے تھی جبکہ قانونی اور آئینی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے تھا۔
لیکن انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ جب سابق جنرل، آرمی چیف کے عہدے پر فائز تھے تو اس وقت سعودی عرب نے انھیں مذکورہ اتحاد کا سربراہ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 'اصل میں جب وہ ملازمت کررہے تھے سعودی عرب کی حکومت ان کو اسلامی ممالک کی اتحادی فوج کا سربراہ بنانا چاہتی تھی'۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ 'اس معاملے پر اس وقت وزیراعظم نواز شریف، حکومت اور چیف آف آرمی اسٹاف کے درمیان تبادلہ خیال ہوا تھا اور اسے مفادات کا ٹکراؤ قرار دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے نیشنل کاؤنٹر ٹررزم اتھارٹی (نیکٹا) کے قانون میں مشترکہ طور پر ایک ترمیم منظور کی جس کے مطابق اتھارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کو پابند کیا جائے گا کہ وہ نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی تفصیلات بتانے کیلئے پر ہر تین ماہ میں اجلاس منعقد کرے۔
اتھارٹی کی دو اہم حصے ہیں، جن میں وزیراعظم کی سربراہی میں پالیسی گائیڈ لائنز کا بورڈ، اور ان ہدایات کی روشنی میں پالیسی پر عمل درآمد کرانے کیلئے وزارت داخلہ کی سربراہی میں قائم ایگزیکٹو کمیٹی شامل ہے۔
مذکورہ ترمیم پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کی تھی جس میں اس بات کو یقینی بنانے کا کہا گیا تھا کہ ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس منعقد کرے گی جس میں پالیسی پر عمل درآمد کے حوالے سے غور کیا جائے گا اور جس میں تمام صوبوں کے تمام اسٹیک ہولڈر شامل ہوں گے۔
ترمیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی سربراہی میں بورڈ آف گورنر نے گذشتہ دو سال میں ایک بھی ملاقات نہیں کی ہے جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی کو مستقل ملاقاتوں کا مینڈیٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہورہی ہے۔
اس کے علاوہ سینیٹ نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2015 بھی منظور کیا جو سینیٹر سسی پلیجو کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
بل کے مطابق اتھارٹی 4 اراکین پر مشتمل ہوگی اور وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں کی مشاورت کے بعد چاروں صوبوں سے ایک ایک رکن کو مقرر کرے گی۔
اتھارٹی کا چیئرمین ان چار اراکین میں سے ایک کو مقرر کیا جائے گا اور یہ عہدہ ہر سال صوبوں میں تقسیم ہوگا۔










لائیو ٹی وی