اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے طیبہ تشدد کیس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔

ڈی آئی جی اسلام آباد کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طیبہ کو ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم نے بطور ملازمہ گھر میں رکھا، جس کی وہ اسے ماہانہ تنخواہ بھی دیتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق طیبہ کی تصاویر حمیرا نامی خاتون نے ملزمہ کے گھر میں بنائیں، طیبہ اور اس کے والدین فواد نامی شخص کے پاس رہائش پذیر تھے، 8 جنوری کو طیبہ اور اس کے والدین تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوئے جس کے بعد تینوں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔

پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچی اور دعویدار والدین کے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ کا انتظار ہے، جبکہ ملزمہ ماہین ظفر کے خلاف نامکمل چالان ٹرائل کورٹ میں جمع کرا دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ میں طیبہ تشدد کیس کی سماعت بدھ کو ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: 'کمسن ملازمہ طیبہ اسلام آباد سے بازیاب'

طیبہ کیس، کب کیا ہوا؟

کمشن ملازمہ پر تشدد کا معاملہ اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے مبینہ والد کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی 'اعتراض' نہیں۔

مزید پڑھیں: طیبہ کے 'والدین' کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم

10 سالہ بچی کے مبینہ والد کی جانب سے بیان حلفی میں تحریر کیا گیا تھا کہ 'انھوں نے کسی دباؤ کے بغیر راضی نامہ کرلیا ہے اور وہ مقدمہ میں نامزد جج کو فی سبیل اللہ معاف کرتے ہیں، عدالت جج یا ان کی اہلیہ کو بری کرے یا ضمانت دے انھیں کوئی اعتراض نہیں'۔

بچی کے والد نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پر معاملے کی چھان بین کی ہے اور انھیں پتہ چلا ہے کہ یہ کیس جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

ویڈیو دیکھیں: گھریلو ملازمہ پرتشدد کا مقدمہ،ایڈیشنل سیشن جج پر الزام

سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے بچی اور اس کے والدین کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا اور اگلی سماعت میں بچی اور اس کے حقیقی والدین کو پیش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی اور اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں